• KHI: Clear 22.3°C
  • LHR: Partly Cloudy 17°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.9°C
  • KHI: Clear 22.3°C
  • LHR: Partly Cloudy 17°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.9°C

ٹی ایل پی کے مرکزی رہنما کو 35 سال قید کی سزا

شائع 16 دسمبر 2025 12:22pm
جج ارشد جاوید نے مجرم قرار دیتے ہوئے سزا سنائی اور ملزم کو سینٹرل جیل کوٹ لکھپت کے سپرنٹنڈنٹ کے حوالے کر دیا۔ فوٹو: سوشل میڈیا
جج ارشد جاوید نے مجرم قرار دیتے ہوئے سزا سنائی اور ملزم کو سینٹرل جیل کوٹ لکھپت کے سپرنٹنڈنٹ کے حوالے کر دیا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے کالعدم تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ڈپٹی چیف ظہیرالحق حسن شاہ کو اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف عوام کو اکسانے کے جرم میں 35 سال قید کی سزا سنا دی۔

عدالت کے مطابق لاہور پریس کلب کے باہر ہونے والے ایک اجتماع میں، جس میں ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی بھی موجود تھے، ظہیرالحق حسن شاہ نے ایسی تقاریر کیں جو اُس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تشدد پر اکسانے کے مترادف تھیں۔

قِلع گجر سنگھ پولیس نے 2024 میں اس عالمِ دین کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا، جو مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں چیف جسٹس کے خلاف تشدد پر اکسانے والی تقریر سے متعلق تھا۔

ایف آئی آر، جو اسٹیشن ہاؤس آفیسر حماد حسین کی مدعیت میں درج کی گئی، انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعات 6 (دہشت گردی)، 7 (دہشت گردی کی سزا) اور 11 ڈبلیو (نفرت انگیز مواد کی طباعت، اشاعت یا ترسیل یا کسی دہشت گردی کے جرم میں سزا یافتہ شخص یا کالعدم/زیرِ نگرانی تنظیم کی تشہیر) کے تحت درج کی گئی تھی۔

جج ارشد جاوید نے مجرم قرار دیتے ہوئے سزا سنائی اور ملزم کو سینٹرل جیل کوٹ لکھپت کے سپرنٹنڈنٹ کے حوالے کر دیا۔

سماعت کے دوران استغاثہ نے الزامات کے حق میں 15 گواہان پیش کیے، ڈپٹی پراسیکیوٹر عبدالجبار ڈوگر نے قانون کے مطابق سزا کی استدعا کی۔

ملزم کی جانب سے ایڈووکیٹ رانا مقصودالحق نے حتمی دلائل دیتے ہوئے عدالت سے اپنے موکل کی بریت کی درخواست کی، تاہم دفاع نے الزامات کی مکمل تردید نہیں کی۔

عدالت نے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7(1)(b) کے تحت 10 سال قیدِ مشقت، جبکہ دفعات 7(g)، 21(L) اور 11(w) کے تحت پانچ پانچ سال قید کی سزا سنائی۔

اس کے علاوہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 505، 117 اور 188 کے تحت بالترتیب سات سال، تین سال اور چھ ماہ قید کی الگ الگ سزائیں بھی دی گئیں۔

پارٹی رہنما پر مجموعی طور پر 6 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تشدد کی کال کے بعد مختلف شہروں میں ٹی ایل پی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف متعدد مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔

اس واقعے کے بعد سیاسی حلقوں اور علما کی جانب سے سخت مذمت بھی سامنے آئی۔

حکومتی عہدیداروں نے ’جھوٹ پھیلانے والوں‘ کے خلاف سخت کارروائی کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ذاتی سیاسی مفادات‘ رکھنے والے عناصر مذہب کے نام پر ’خون اور تشدد‘ پھیلا رہے ہیں۔

وزیرِ دفاع نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس میں فیصلہ دیا، مگر متعلقہ عناصر اب بھی جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست کسی کو یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ کسی کے قتل کا فتویٰ دے۔ اگر ایسا ہونے دیا گیا تو ریاست کی رِٹ ختم ہو جائے گی۔‘

وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے کہا تھا کہ معاشرے میں ایسی اشتعال انگیز تقاریر کے لیے ’کوئی گنجائش نہیں‘، اور ان کے پیچھے ’سیاسی محرکات‘ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ انسدادِ دہشت گردی قوانین کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

انہوں نے ایکس پر کہا تھا کہ ’ریاستِ پاکستان میں ایسی باتوں کی کوئی جگہ نہیں اور اسے ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘

واضح رہے کہ وفاقی کابینہ نے اکتوبر میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مذہبی و سیاسی جماعت ٹی ایل پی پر پابندی عائد کر دی تھی، جو غزہ کے معاملے پر ملک گیر احتجاج کے چند دن بعد لگائی گئی۔ ان احتجاجات میں متعدد مظاہرین اور پولیس اہلکار جان سے گئے اور کراچی سے اسلام آباد تک اہم شاہراہیں اور شہر مفلوج ہو گئے تھے۔

ٹی ایل پی کی بنیاد 2015 میں ایک تحریک کے طور پر رکھی گئی تھی، جو 2016 میں ایک سیاسی جماعت میں تبدیل ہوئی۔ اسے 2021 میں عمران خان کی حکومت کے دوران پرتشدد احتجاج کے بعد بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 16 دسمبر 2025
کارٹون : 15 دسمبر 2025