کراچی میں یوٹیوبر رجب بٹ پر حملے کے بعد پولیس اسٹیشن پر ہنگامہ، ایس ایچ او پر تشدد کے الزام میں وکلا کیخلاف مقدمہ درج
کراچی میں عدالت میں پیشی کے دوران یوٹیوبر رجب بٹ پر مبینہ تشدد کے واقعے کے بعد صورتحال مزید سنگین ہو گئی، جہاں اس مقدمے کے اندراج پر احتجاج کرنے والے متعدد وکلا کے خلاف سٹی کورٹ کے ایس ایچ او پر مبینہ حملے کے الزام میں فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کر لی گئی۔
گزشتہ روز یہ بات سامنے آئی تھی کہ پیر کو کراچی کی ایک عدالت میں پیشی کے دوران یوٹیوبر رجب بٹ پر جسمانی تشدد کے واقعے پر ایک درجن سے زائد وکلا کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ اس ایف آئی آر میں ایڈووکیٹ ریاض علی سولنگی، ایڈووکیٹ عبد الفتح چانڈیو اور مزید 15 سے 20 نامعلوم وکلا کو نامزد کیا گیا تھا۔
اس کے بعد وکلا نے سٹی کورٹ تھانے پر دھاوا بول دیا اور مطالبہ کیا کہ یوٹیوبر اور دیگر افراد کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا جائے۔ وکلا نے سٹی کورٹ تھانے کے ایس ایچ او کے خلاف مبینہ طور پر ایف آئی آر درج نہ کرنے پر ایم اے جناح روڈ پر سٹی کورٹ کے باہر احتجاج بھی کیا۔
بعد ازاں ایک نئی ایف آئی آر جس کی کاپی ڈان کے پاس موجود ہے، بدھ کو سٹی کورٹ کے ایس ایچ او جہانگیر بھٹو کی مدعیت میں درج کی گئی۔
یہ مقدمہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 337-A (شجہ کا جرم)، 504 (جان بوجھ کر توہین)، 506 (مجرمانہ دھمکیاں)، 186 (سرکاری ملازم کو فرائض کی انجام دہی سے روکنا)، 149 (غیر قانونی طور پر مجمع اکٹھا کرکے فساد کرنا)، 147 (فساد) اور 353 (سرکاری ملازم کو فرائض سے روکنے کے لیے حملہ یا مجرمانہ طاقت کا استعمال) کے تحت درج کیا گیا۔
ایس ایچ او کے مطابق 30 دسمبر کو گشت کے دوران انہیں اطلاع ملی کہ تقریباً 40 سے 50 وکلا، جن کی قیادت عبد الفتح چانڈیو، ایڈووکیٹ عبد الوہاب راجپر اور ایڈووکیٹ ریاض علی سولنگی کر رہے تھے، نے زبردستی رسالہ پولیس پوسٹ میں داخل ہو کر ہنگامہ آرائی شروع کر دی ہے، یہ پولیس پوسٹ عارضی طور پر سٹی کورٹ تھانے میں قائم کی گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ وکلا یوٹیوبر رجب بٹ اور اس کے وکیل کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ایس ایچ او کے مطابق جب وہ دوپہر دو بجے کے قریب تھانے پہنچے تو وکلا نے ان سے پوچھا کہ ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی اجازت کیوں دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ وکلا مجھ سے رجب بٹ اور اس کے وکیل کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اس حوالے سے پہلے ہی ایک مقدمہ درج ہو چکا ہے، جس پر وہ طیش میں آ گئے، گالیاں دینے لگے اور پھر مجھے لاتیں اور گھونسے مارنے شروع کر دیے۔
ایس ایچ او کے مطابق پولیس عملے کی مداخلت پر وکلا وہاں سے چلے گئے، تاہم جاتے ہوئے نعرے بازی کی اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔
اس ایف آئی آر میں عبد الفتح چانڈیو، عبد الوہاب راجپر اور ریاض علی سولنگی کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ 40 سے 50 دیگر افراد کو نامعلوم رکھا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ریاض علی سولنگی اس مقدمے میں بھی نامزد ہیں جو رجب بٹ کے وکیل کی درخواست پر درج کیا گیا تھا۔ وہ اس مقدمے کے مدعی بھی ہیں جو یوٹیوبر کے خلاف مذہبی جذبات مجروح کرنے کے الزام میں درج ہوا، جس کے سلسلے میں رجب بٹ پیر کو عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
ایس ایچ او جہانگیر بھٹو کے مطابق ملزمان نے انہیں سرکاری فرائض کی انجام دہی سے روکا، جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں، تشدد کیا اور زبانی بدسلوکی کی۔
دوسری جانب یوٹیوبر رجب بٹ کے وکیل میاں علی اشفاق نے ریاض علی سولنگی، عبد الفتح چانڈیو اور 15 سے 20 دیگر وکلا کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 147، 148، 382، 506 اور 337-A کے تحت مقدمہ درج کروایا۔
ایف آئی آر کے مطابق رجب بٹ صبح نو بجے ضمانت کے لیے سٹی کورٹ پہنچے تھے، تاہم ویسٹ بلڈنگ کے قریب اندرونی احاطے میں پہنچتے ہی سولنگی اور چانڈیو نے دیگر وکلا کے ہمراہ ان پر حملہ کر دیا اور تشدد کیا، جس سے یوٹیوبر زخمی ہو گئے۔ میاں اشفاق کے مطابق حملے کے دوران ان پر اور ان کے دفتر کے دیگر وکلا پر بھی تشدد کیا گیا۔
انہوں نے مزید الزام لگایا کہ حملے کے وقت رجب بٹ کے پاس تین لاکھ روپے نقدی والا بیگ موجود تھا، جو چھین لیا گیا۔ بعد میں سولنگی نے بیگ واپس کر دیا، تاہم رقم غائب تھی۔
ایڈووکیٹ ریاض علی سولنگی نے پیر کو ڈان کو بتایا تھا کہ یوٹیوبر نے 20 دسمبر کو عبوری ضمانت حاصل کرنے کے بعد ایک ولاگ اپ لوڈ کیا، جس میں مبینہ طور پر کراچی کے وکلا اور ان کے خلاف نامناسب زبان استعمال کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ جھگڑے کے بعد رجب بٹ کو کراچی بار ایسوسی ایشن کے کمیٹی روم لے جایا گیا، جہاں یوٹیوبر نے وکلا سے معذرت کر لی۔












لائیو ٹی وی