نادرا کے بایو میٹرک قوانین میں ترمیم، چہرے اور آنکھوں کی اسکیننگ کو قانونی شناخت مل گئی

شائع December 31, 2025 اپ ڈیٹ December 31, 2025 02:27pm
نادرا کی سفارش پر کی گئی اس ترمیم سے پاکستان میں ملٹی بایومیٹرک ویری فکیشن سسٹم کے نفاذ کے لیے مضبوط قانونی بنیاد فراہم ہو گئی ہے— فوٹو: فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار
نادرا کی سفارش پر کی گئی اس ترمیم سے پاکستان میں ملٹی بایومیٹرک ویری فکیشن سسٹم کے نفاذ کے لیے مضبوط قانونی بنیاد فراہم ہو گئی ہے— فوٹو: فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار

وفاقی حکومت نے قومی شناختی کارڈ قواعد میں ترمیم کرتے ہوئے بایومیٹرکس کی تعریف کو وسیع کر دیا ہے، جس کے تحت فنگر پرنٹس کے علاوہ چہرے اور آنکھوں کی اسکیننگ کو بھی قانونی طور پر قابلِ قبول بایومیٹرک شناخت تسلیم کر لیا گیا ہے۔

نادرا کی سفارش پر کی گئی اس ترمیم سے پاکستان میں ملٹی بایومیٹرک ویری فکیشن سسٹم کے نفاذ کے لیے مضبوط قانونی بنیاد فراہم ہو گئی ہے۔

اسی قانونی فریم ورک کی بنیاد پر نادرا نے کنٹیکٹ لیس فنگر پرنٹ اور فیشل ریکگنیشن پر مبنی بایومیٹرک تصدیق کی تکنیکی سہولت متعارف کرا دی ہے۔

نادرا کے مطابق یہ نظام اس وقت نادرا کے رجسٹریشن مراکز اور پاک آئی ڈی موبائل ایپ پر دستیاب ہے اور اسے اسلام آباد میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی منتقلی اور آن لائن پاسپورٹ درخواستوں میں بایومیٹرک تصدیق کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

مستقبل میں وفاقی حکومت کے پنشنرز کے لیے پروف آف لائف سرٹیفکیٹس بھی اسی نظام کے تحت جاری کیے جائیں گے جبکہ ان ڈیجیٹل سہولیات کے دائرہ کار کو مرحلہ وار بڑھایا جا رہا ہے۔

20 جنوری 2026 سے نادرا تمام رجسٹریشن مراکز پر ان شہریوں کے لیے فیشل ریکگنیشن پر مبنی بایومیٹرک تصدیقی سرٹیفکیٹس جاری کرنا شروع کرے گا جن کے فنگر پرنٹس کے ذریعے تصدیق ممکن نہیں ہوتی۔ جہاں بھی کسی ادارے کو ایسی تصدیق درکار ہو، شہری 20 روپے کی معمولی فیس ادا کر کے کسی بھی نادرا رجسٹریشن مرکز سے یہ سرٹیفکیٹ حاصل کر سکیں گے۔

اس طریقہ کار کے تحت اگر کسی سروس فراہم کرنے والے ادارے کے پاس فنگر پرنٹ کے ذریعے بایومیٹرک تصدیق ناکام ہو جائے تو شہری قریبی نادرا رجسٹریشن مرکز جا کر نئی تصویر بنوائیں گے۔

یہ تصویر نادرا کے ریکارڈ میں موجود تصویر سے میچ کی جائے گی۔ کامیاب تصدیق کی صورت میں نادرا ایک سرٹیفکیٹ جاری کرے گا جس میں تصدیق کا مقصد، شہری کی حالیہ تصویر اور ریکارڈ میں موجود تصویر، قومی شناختی کارڈ نمبر، نام، والد کا نام، منفرد ٹریکنگ آئی ڈی اور کیو آر کوڈ شامل ہوں گے۔

یہ سرٹیفکیٹ سات دن کے لیے قابلِ استعمال ہوگا۔ شہری اسے متعلقہ ادارے میں جمع کروائیں گے، جہاں بایومیٹرک تصدیق درکار ہوگی اور ادارہ اسے نادرا کے ذریعے آن لائن ویریفائی کرے گا۔

مستقبل میں فیشل امیج پر مبنی بایومیٹرک تصدیقی سرٹیفکیٹس نادرا کی ای سہولت فرنچائزز پر بھی دستیاب ہوں گے۔ ڈیجیٹل آئی ڈی کے باضابطہ اجرا کے بعد یہ سہولت پاک آئی ڈی ایپ کے ذریعے تمام خدمات کے لیے فراہم کر دی جائے گی۔

نادرا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ اس نظام کے نفاذ کے لیے مکمل طور پر تیار ہے تاہم اس کے مؤثر اطلاق کے لیے ریگولیٹرز، متعلقہ سرکاری اداروں اور نجی شعبے کی تنظیموں سے کہا گیا ہے کہ وہ منظور شدہ معیارات کے مطابق اپنے ہارڈویئر اور سافٹ ویئر کو مرحلہ وار اپ گریڈ کریں۔

پہلے مرحلے میں اداروں کے سافٹ ویئر سسٹمز میں تکنیکی اپ گریڈ درکار ہوں گے تاکہ نادرا کی جانب سے جاری کردہ فیشل ریکگنیشن بایومیٹرک سرٹیفکیٹس کو ضم کیا جا سکے۔ دوسرے مرحلے میں سروس کاؤنٹرز پر کیمرے نصب کرنا یا موجودہ کے وائی سی بایومیٹرک مشینوں میں کیمرے شامل کرنا ضروری ہوگا، کیونکہ ان اپ گریڈز کے بغیر نادرا براہِ راست ان مقامات پر یہ سہولت فراہم نہیں کر سکے گا۔

اگر 20 جنوری 2026 کے بعد شہریوں کو اس سہولت کے حصول میں کسی قسم کا مسئلہ درپیش ہو تو وہ متعلقہ ادارے یا محکمے میں شکایت درج کرا سکتے ہیں کیونکہ نادرا کی جانب سے یہ سروس دستیاب ہوگی۔

اس سہولت کے جلد از جلد عملی نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے نادرا نے وزارتِ داخلہ سے بھی درخواست کی ہے کہ تمام متعلقہ اداروں کو ضروری ہدایات جاری کی جائیں، توقع ہے کہ اس نظام کے مکمل نفاذ کے بعد شہریوں کو فنگر پرنٹس سے متعلق پیچیدگیاں اور مشکلات مؤثر طور پر دور ہو جائیں گی۔

مکمل نفاذ کے بعد شہریوں کو متعلقہ اداروں میں ہی یہ سہولت دستیاب ہوگی اور نادرا رجسٹریشن مرکز جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ڈیجیٹل آئی ڈی کے اجرا کے بعد شہری پاک آئی ڈی ایپ کے ذریعے بھی خود یہ سہولت حاصل کر سکیں گے۔

عمر بڑھنے یا بعض طبی وجوہات کی بنا پر کئی شہریوں کے فنگر پرنٹس وقت کے ساتھ مدھم ہو جاتے ہیں، جس کے باعث بینکوں، سم کارڈ فرنچائزز، ہاؤسنگ سوسائٹیز، جائیداد کی منتقلی اور دیگر لین دین میں جہاں فنگر پرنٹ کے ذریعے بایومیٹرک تصدیق لازمی ہو، انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس کے علاوہ کئی مقامات پر ناقص یا کم معیار کے فنگر پرنٹ ریڈرز کے باعث بھی بایومیٹرک تصدیق ممکن نہیں ہو پاتی۔ اگرچہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے ایسے شہریوں کے لیے طریقہ کار مقرر کر رکھے ہیں تاہم عملی طور پر مسائل برقرار رہتے ہیں۔

ان مسائل کے فوری اور مؤثر حل کے لیے وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے نادرا کو ہدایات جاری کی تھیں، جن پر عمل درآمد کے تحت یہ اقدامات کیے گئے ہیں۔

1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 31 دسمبر 2025
کارٹون : 30 دسمبر 2025