امریکی افواج کا لیبیا اور صومالیہ میں دہشتگردوں کیخلاف آپریشن
واشنگٹن: امریکی افواج نے افریقہ میں دہشتگردوں کے دو اہم ٹارگٹس پر حملہ کرکے تریپولی کی سڑک سے القاعدہ کے ایک اہم لیڈر کو گرفتار کیا ہے جبکہ صومالیہ میں شباب تنظیم کے لیڈر کے گھر پرصبح سویرے حملہ کیا ہے۔
حکومتِ لیبیا نے اتوار کے روز واشنگٹن کو مطلوب ' لیبیائی باشندے' کے ' اغوا' کی وضاحت طلب کی ہے۔ اس شخص کی شناخت القاعدہ کے ابو انس ال لبی کے طور پر کی گئی ہے جو 1998 میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارتخانوں پر حملے میں مبینہ طور پر ملوث ہے۔
اس کے علاوہ ایک الگ سے حملے میں صومالیہ کے جنوب میں ساحلی شہر براوے میں بھی کارروائی کی گئی لیکن شباب کے رہنما کو گرفتار کرنے میں ناکامی ہوئی اور یہ بھی واضح نہیں ہوسکا ہے کہ اسے قتل کیا گیا ہے نہیں۔ لیکن امریکی آفیشلز کے مطابق اس آپریشن میں القاعدہ سے وابستہ کئی افراد کو پکڑا گیا ہے۔
یہ کارروائی گزشتہ ماہ نیروبی کے ایک شاپنگ سینٹر میں حملے کے بعد کی گئی ہے جس میں الشباب تنظیم کے دہشتگردوں نےچار دن تک لوگوں کو یرغمال بنائے رکھا تھا اور اس میں67 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
پینٹاگون کے ترجمان جارج لٹل نے ایک بیان میں کہا ،' انسدادِ دہشتگردی کی امریکی پالیسی کے تحت، ابو انس اللبی کو گرفتار کرنے کے بعد لیبیا کے باہر ایک محفوظ مقام پر قانونی طریقے سے رکھا گیا ہے۔'
ال لبی کے قریبی ساتھی نے کہا اسے مسلح افراد نے تریپولی میں گرفتارکیا ہے۔
لبی کا نام ایف بی آئی کی جانب سے انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہے اور اس پر پچاس لاکھ ڈالر کا انعام ہے ۔ وہ امریکی فیڈرل کورٹ ، نیویارک کی جانب سے مشرقی افریقہ میں بمباری کے واقعات میں مبینہ طور پرملوث ہیں اور ان حملوں میں 200 ہلاک ہوئے تھے۔
اس کی گرفتاری کے بعد امریکہ کی وہ پندرہ سالہ جنگ ختم ہوگئی ہے جس میں وہ اللبی کی تلاش میں تھا اور اس کا اصل نام نازیہی عبدالحمید الراغی تھا۔
اننچاس سالہ اللبی کو مقدمہ چلانے کیلئے امریکہ لے جایا جائے گا۔
انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا،' ہمیں اُمید ہے کہ اس سے واضح ہوگا کہ امریکہ دہشت گردی کے ذمے داروں کی گرفتاری کے عمل میں نہیں رکے گا۔'
انہوں نے کہا کہ القاعدہ اور دیگر دہشتگردوں کے اراکین بھاگ سکتے ہیں لیکن چھپ نہیں سکتے۔'
امریکی آفیشلز کے مطابق یہ آپریشن لیبیا کی حکومت کی توجہ میں لاکر دن کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ تاہم لیبیا کی انتظامیہ نے کسی بھی قسم کی گرفتاری اور اغوا کی تردید کی ہے۔
' امریکہ کو مطلوب ایک لیبیائی باشندے کی گرفتاری یا اغوا کی رپورٹس کے بعد لیبیائی حکومت اس پر غور کررہی ہے،' ایک حکومتی بیان میں کہا گیا۔
دہشتگردی کیخلاف لندن میں قائم ایک تھنک ٹینک سے وابستہ نارمن بینوٹمن نے سی این این سے کہا کہ مقامی وقت کے مطابق صبح چھ بنچے اس ( اللبی ) کے گھر کے باہر تین کاروں میں سوار دس افراد اس کے منتظر تھے اور فجر کے بعد واپس آنے والے اللبی کو دبوچ لیا جسے اپنا اسلحہ اُٹھانے کی مہلت بھی نہ ملی۔'
نارمن بینوٹمن نے کہا کہ واقعے کے بعد لیبیائی حکومت نے امریکہ سے ان کے اغوا کی وضاحت طلب کی ہے۔
امریکی حکام کے مطابق اللبی اور القاعدہ کے دیگر اراکین نے 1993 میں نیروبی میں امریکی سفارتخانے پر حملے کی منصوبہ بندی بھی کی تھی۔، اسے کے علاوہ 1994 میں اس نے امریکہ، برطانیہ ، فرانس، اسرائیل اور انٹرنیشنل ڈویلمپنٹ کی تنصیبات اور دیگر دفاتر پر حملے کی منصوبہ بندی بھی کی تھی۔
ایک امریکی آفیشل کے مطابق صومالیہ میں ' ایک ہائی ویلیو ٹارگٹ' کو گرفتار کیا گیا ہے جس میں کوئی اہلکار ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔
اب سے چار سال قبل امریکہ نے صومالیہ میں القاعدہ کے اہم رہنما صالح علی صالح کو عین اسی جگہ پر ہلاک کیا تھا۔
تاہم مرنے والے کی اب تک شناخت سے انکار کیا جارہا ہے۔ امریکی عسکری حکام کا کہنا ہے کہ شباب رہنماؤں پر حملے میں یہ خیال رکھا گیا ہے کہ سویلین افراد نہ مارے جائیں اور امریکہ نے سمندر سے خشکی پر حملی کیا تھا۔ لیکن سینیئر کمانڈر کے گھر تک رسائی نہ ہوسکی۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق اس کے بعد امریکی سیل نے شباب رہنما کے سمندر کنارے واقع گھر پر حملہ کیا۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس حملے میں وہ اہم رہنما مارا گیا ہے لیکن امریکی حکام اس کی وضاحت نہیں کررہے۔