• KHI: Partly Cloudy 16.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 11.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.2°C
  • KHI: Partly Cloudy 16.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 11.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.2°C

لوکل گورنمنٹ میں خواتین

شائع October 8, 2013

فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

ترقی پذیر ملکوں میں آج کل نظم و نسق میں مقامی خود مختاری دینے کا رجحان دن بدن بڑھ رہا ہے- تاہم، سیاسی مفکرین یہ کہتے ہیں کہ اس کا بنیادی مقصد یعنی، حکومت کا عوام کی ضروریات کی طرف زیادہ توجہ دینے کا مقصد ہی فوت ہوجائیگا اگر سماج کے مظلوم طبقات مثلاً عورتوں کو اس میں حصہ لینے سے محروم کردیا جائے-

اس کے علاوہ وہ اس کی افادیت پر بھی زور دیکر یہ کہتے ہیں کہ چونکہ عورتوں کے مفادات مختلف ہوتے ہیں جنہیں مرد حل نہیں کرسکتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ منتخب عہدوں پر عورتوں کی نمائندگی میں اضافہ کیا جائے-

یہ سوچ این فلپس کے نظرئیے (Politics of Presence) "موجودگی کی سیاست" کے مطابق ہے یعنی اگر منتخب تنظیموں میں عورتوں کی تعداد مناسب ہوگی تو پھر مرد بھی عورتوں کے مسائل حل کرنے میں زیادہ دلچسپی لینگے-

چونکہ عورتوں کو عام نشستوں (جنرل سیٹس) پر منتخب ہونے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے عورتوں کی نشستوں کے لئے (Quota) کوٹہ کا تعین سیاست میں جنس کی بنیاد پر موجود فرق کوفوری طورپر کم کرنے کا بہتر طریقہ سمجھا جاتا ہے- جہاں تک کوٹہ کے سائز کا تعلق ہے تو ٹرمبلے اور اسٹیل کے مطابق اسکی حد تیس فی صد سے زیادہ ہونی چاہئے تاکہ عورتوں کو قابل لحاظ نمائیندگی ملے-

ان خیالات کا اظہار 1976 کی ویمنز رائٹس کمیٹی کی رپورٹ میں کیا گیا تھا جس کی صدارت یحییٰ بختیار نے کی تھی-

کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ پاکستانی سیاست میں عورتوں کی کم نمائندگی پر اس وقت قابو پایا جاسکتا ہے جبکہ مقامی حکومت کی سطح پرعورتوں کے لئے 25 فی صد نشستیں مختص کر دی جائیں جس سے ان میں اعتماد پیدا ہوگا اور یہ اعلیٰ سطح کی سیاست میں حصہ لینے میں ایک محرک کا کام دیگا-

جسٹس ناصراسلم زاہد کی سربراہی میں اگست 1997 میں قائم ہونے والے کمیشن آف انکوائری فار ویمن نے بھی اس تجویز سے اتفاق کیا تھَا- لیکن ساتھ ہی یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ کوٹہ کی تعداد بڑھا کر 33 فی صد کر دی جائے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ فیصلہ سازی میں عورتوں کی شرکت کو بااختیار بنانے کے لئے کم از کم اتنی تعداد کا ہونا ضروری ہے-

ان سفارشات پر اس وقت عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا حتیٰ کہ جنرل مشرف نے 2000 کا اختیارات کی تقسیم (Devolution Plan) کا منصوبہ پیش کیا-

اگرچہ کہ بحیثیت مجموعی اس نظریہ پر اور اس کے محرکات پر سخت تنقید کی گئی لیکن انہوں نے مقامی حکومت کے ہر درجے پر 33 فیصد نشستیں مخصوص کرنے کی جو تجویز پیش کی تھی، خاص طور پر، براہ راست انتخاب کے ذریعہ یونین کونسلوں میں، تو یہ نچلی سطح (Grass root level) پر سیاسی لحاظ سے عورتوں کو بااختیار بنانے کی جانب ایک اہم قدم تھا-

تاہم اس کے نتیجے میں سول سوسائٹی میں خاص طور پر تین خدشات پیدا ہوئے- اس معاملے میں میرے نظریات اس تحقیق پر مبنی ہیں جو میں نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے لئے وسیع پیمانے پر کی اور جس کا عنوان تھا "پاکستانی خواتین کو بااختیار بنانے کا عمل (Political Empowerment of Women in Pakistan)"-

اس سلسلے میں میں نے تمام صوبوں کی چند منتخب تنظیموں کا دورہ کیا، 594 مقامی عورتوں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا، 153 خواتین کونسلروں اور ناظمین کے ساتھ انٹرویو کیا- یہ سارا کام 2004-2008 کی مدت کے دوران ہوا-

سب سے پہلا خدشہ یہ تھا کہ 33 فی صد عورتوں کی نشستوں کو پر کرنے کے لئے عورتیں دستیاب نہ ہونگی لیکن اس کے باوجود عورتوں کی نشستوں پر 2001 میں اس کا 87 فی صد اور 2005 میں 97 فی صد نشستوں پر عورتیں منتخب ہوئیں-

اس کا سہراعورت فاونڈیشن کے سر جاتا ہے جس نے سول سوسائٹی کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ لوکل گورنمنٹ میں عورتوں کی نمائیندگی کے لئے مہم چلائے-

دوسرا خدشہ ہمارے سماج میں پائے جانے والے پدرسری نظریات اور مذہبی قدآمت پسندی کی جانب سے لاحق تھا جنہیں یہ ڈر تھا کہ لوکل باڈیز میں اگر ہزاروں کی تعداد میں عورتیں کونسلرز ہونگی تو اس کے نتیجے میں معاشرے میں اخلاقی ٹوٹ پھوٹ واقع ہوگی-

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اگرچہ کہ مذہبی عناصر نے 2001-2002 کے انتخابات میں عورتوں کی شرکت کی سخت مخالفت کی لیکن جب انتخابات دوسرے مرحلے میں داخل ہوئے تو جماعت اسلامی نے بھی عورتوں کی مخصوص نشستوں کے لئے بڑی تعداد میں امیدوار کھڑے کئے-

اسی طرح اپنے رول کے ابتدائی دور کے بعد ان اداروں میں عورتوں کی بڑی تعداد کی موجودگی کی وجہ سے مردوں میں شائستگی کا رویہ بھی پیدا ہوا-

تیسرا خدشہ خواتین کونسلروں کی اہلیت سے متعلق تھا کیونکہ ان کی اکثریت ناخواندہ تھی اور نچلے طبقے سے تعلق رکھتی تھی اور ڈر یہ تھا کہ ان کی شرکت نتیجہ خیز نہیں ہوگی-

لیکن اپنی ریسرچ کے نتیجے میں میرا تعارف ایک نئی دنیا سے ہوا جن میں سے بہت سی عورتوں نے اپنی بہترین خدمات کی وجہ سے ممتاز مقام حاصل کرلیا تھا-

اس کی بہترین مثال کونسلر کریمن بی بی ہیں جن کا انٹرویو میں نے میرپور خاص میں کیا- وہ اپنے ترقیاتی فنڈ کو استعمال کرنے سے پہلے سوچتی تھیں: "اگر سڑک نہ بنائی گئی تب بھی لوگ کسی نہ کسی طرح  اپنے گھر پہنچ جائینگے لیکن اگر لڑکیوں کے لئے اسکول نہ کھولے جائیں تو میری بیٹی بھی میری طرح ان پڑھ رہ جائیگی جس طرح میری ماں اوران کی بھی ماں ان پڑھ تھیں- میں سمجحھتی ہوں کہ اس طرح کی زندگی بے مقصد زندگی ہے-"

اس قسم کی بہت سی کہانیاں آپ کو یو این ڈی پی، پیٹن (Pattan) اور عورت فاونڈیشن کی کتابوں میں ملینگی-

سماجی سرگرمیوں کے میدان میں ان کی کامیابیاں اور بھی حوصلہ افزا ہیں-

نیشنل کمیشن کی (Study on Local Bodies System and its Impact on Women 2010) عورتوں پر لوکل باڈیز سسٹم کے اثرات کے بارے میں کمیشن کی رپورٹ 2010 میں یہ بتایا گیا ہے کہ ابتدا میں مردوں کی مخالفت کے باوجود ان عورت کونسلروں نے مقامی عورتوں کی کس طرح زکوٰۃ فنڈ اور بیت المال سے مدد کی، اسکولوں میں ان کے داخلے کے انتظامات کئے، انہیں طبی امداد فراہم کی، ان کے شناختی کارڈ بنوائے، ان کے ساتھ تھانے گئیں، خاندانی تنازعات کو سلجھانے میں حصہ لیا حتیٰ کہ عورتوں پر ہونے والے تشدد کے واقعات نمٹائے اور ان عورتوں کے لئے رول ماڈل بن گئیں-

میری ریسرچ کے نتیجے میں لاشعوری طور پر اور بھی رجحانات سامنے آئے- یعنی اس کے نتیجے میں کس طرح عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے میں مدد ملی ---- اگرچہ کہ وہ ان بااختیار عورتوں ہی کے ساتھ باہر نکلتی تھیں ---- چنانچہ وہ پہلے سے زیادہ بااختیار ہو گئیں- اس کا مطلب ہے منتخب کرنے والی عورتیں اور منتخب ہونے والی عورتیں دونوں ہی نے اختیارات حاصل کئے-

اسی لئے میں اس بات کی پر زور سفارش کرتی ہوں کہ ایل جی او 2001 میں عورتوں کے تعلق سے جو دفعات موجود ہیں انہیں قائم رکھا جائے- لیکن ان قوانین میں دو ترمیمات کی ضرورت ہے- اول تو یہ کہ کورم پورا کرنے کے لئے عورتوں کی تینتیس فی صد حاضری کو لازمی بنایا جائے-

دوسرے یہ کہ کسی بھی بل کو منظور کرنے کے لئے 33 فی صد عورت کونسلروں کے ووٹ کو لازمی قرار دیا جائے- اگر تمام مسائل پر عورتوں کے نقطہ نظرکے حصول کو یقینی بنایا جائے تو ان ترمیمات کے نتیجے میں نچلی سطح سے عورتوں کو سیاسی طور پر بااختیار بنانے میں بڑی مدد مل سکتی ہے-


ترجمہ: سیدہ صالحہ

اسماء افضل شامی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025