ملالۓ یوسف زئی -- فائل السٹریشن
ملالۓ یوسف زئی -- فائل السٹریشن

نوٹ: یہ ایک طنزیہ اور فرضی مضمون ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں


ستمبر دو ہزار بارہ میں، پاکستان کی وادئ سوات سے تعلق رکھنے والی ایک پندرہ سالہ طالبہ کے بارے میں رپورٹ ملی کہ اسے ایک طالبان ایکٹوسٹ نے سر میں گولی مار دی ہے-

اس حملے سے پوری دنیا میں غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی، اور اس خبر کو مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں وسیح پیمانے پر کوریج دی گئی-

رپورٹ کے مطابق پاکستانی ڈاکٹروں اور پھر برطانوی ڈاکٹروں نے ملالۓ کے چہرے اور سر کی کئی سرجریاں کیں اور بلآخر اسے بچالیا-

آج ملالۓ برطانیہ میں رہ رہی ہے اور مسلسل پاکستان میں عورتوں کی تعلیم کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھنے کا عزم دہراتی ہے، خصوصاً ان علاقوں میں جہاں سننے میں آیا ہے کہ انتہا پسند اور عسکری تنظیمیں لڑکیوں کے سکول تباہ کر رہی ہیں-

لیکن یہ کہانی کا صرف ایک رخ ہے- یہ ایک حیرت انگیز داستان ہے جس کا تانا بانا مغربی میڈیا نے بنا ہے.

اس سال اپریل میں، ڈان ڈاٹ کوم نے واقعہ کی تحقیقات کرنے کے لئے اپنے سب سے تجربہ کار نامہ نگاروں کا ایک گروپ پانچ ماہ کے لئے سوات بھیجا جن کی تحقیق و تفتیش سے انکشافات کا ایک دل دہلا دینے والا سلسلہ سامنے آیا جو ملالۓ کے بارے میں گھڑے گئے مغربی افسانے سے پردہ اٹھاتے ہوئے اصل حقائق بمعہ ثبوت سامنے لاتا ہے.

malala painting 670
ملالۓ یوسف زئی -- جوناتھن یاؤ -- نیشنل پورٹریٹ گیلری --.

اس تحقیق کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:

1. ملالۓ سوات میں پیدا ہی نہیں ہوئی بلکہ وہ پشتون ہی نہیں ہے: سوات کے ایک معزز ڈاکٹر، امتیاز علی خانزئی نے، جو سوات میں ایک پرائیویٹ ہسپتال اور کلینک چلاتے ہیں، ہمارے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ان کے پاس ایک ڈی این اے رپورٹ ہے جس کے مطابق ملالۓ پشتون نہیں ہے-

رپورٹ دکھاتے ہوۓ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ملالۓ کا ڈی این اے اس وقت حاصل کیا تھا جب وہ ایک بچی تھی اور اپنے والدین کے ساتھ کان کے درد کی شکایت لے کر کلینک آئی تھی-

"پچھلے سال اس گولی حملے کے بعد، مجھے یاد آیا کہ میرے پاس ایک بوتل ہے جس میں، میں نے ملالۓ کے کان کا میل جمع کر رکھا تھا"، ڈاکٹر نے وضاحت دی- "اپنے مریضوں کے کانوں کے میل جمع کرنا میرا مشغلہ ہے-"

ان کا دعویٰ تھا کہ ڈی این اے کے مطابق ملالۓ ایک سفید فام ہے اور ممکن ہے اس کا تعلق پولینڈ سے ہو- اس دریافت کے بعد ڈاکٹر نے ملالۓ کے والد کو فون کیا اور اصرار کیا کہ وہ بتائیں کہ ملالۓ کون ہے-

"وہ گھبرا گۓ اور ہکلانے لگے"، ڈاکٹر نے کہا- "انہوں نے درخواست کی کہ خدارا وہ اس راز سے پردہ نہ اٹھائیں- میں نے انہیں بتایا کہ میں ایسا نہیں کروں گا اگر وہ مجھے پوری سچائی بتا دیں"-

پھر انہوں نے مجھے بتایا کہ ملالۓ کا اصل نام 'جین' ہے وہ سنہ انیس سو ستانوے میں ہنگری میں پیدا ہوئی تھی- اسکو جنم دینے والے اصلی والدین عیسائی مشنری تھے جو دو ہزار دو میں سوات آۓ اور واپسی کے وقت ملالۓ کو اس کے منہ بولے والدین کو بطور تحفہ دے گۓ جو خفیہ طور پر عیسائی ہو گۓ تھے-

جب ہمارے نامہ نگاروں نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ اب وہ ملالۓ کی شناخت کیوں ظاہر کر رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ انہیں یقین تھا کہ ملالۓ کو پاکستان مخالف عناصر نے سوات میں بھیجا تھا-

انہوںنے مزید بتایا کہ وہ یہ بھی ثابت کر سکتے ہیں کہ ملالۓ کو گولی مارنے والا شخص بھی پشتون نہیں تھا، "میرے پاس اس کے بھی کان کا میل موجود ہے"، ڈاکٹر نے دعویٰ کیا-

حملہ آور کے کان کا میل حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر نے دریافت کیا کہ شاید اس کا تعلق اٹلی سے ہے- انہوں نے ہمارے نامہ نگاروں کو مائکروسکوپ میں اس شخص کے کان کا میل دیکھنے کی دعوت دی-

"یہ جو چھوٹے چھوٹے پیلے رنگ کے ٹکڑے آپ دیکھ رہے ہیں یہ پیزا کے ٹکڑے ہیں"، انہوں نے بتایا-

ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ جنوری دو ہزار بارہ میں انہوں نے اپنی معلومات پاکستان انٹیلی جنس ایجنسی، آئی ایس آئی، کے چند سینئر ارکان کو ای میل کر دیں-

کچھ دنوں بعد ان کے کلینک پر پولیس نے چھاپہ مارا- اس وقت ڈاکٹر صاحب سعودی عرب میں تھے جہاں وہ شاہی خاندان کے چند ارکان کے کانوں کا میل جمع کر رہے تھے- پولیس نے انکے کلینک کے عملے کو ہراساں کیا جو یہ جاننا چاہتے تھے کہ کان کے میل کے نمونے کہاں رکھے گۓ ہیں-

اس سال جون میں، ڈاکٹر کے پاس ایک جوان آئی ایس آئی افسر آیا جس نے پولیس چھاپے کی معذرت چاہی اور بتایا کہ آئی ایس آئی ملالۓ کی اصل شناخت سے بخوبی واقف ہے- ہمارے بہلانے پھسلانے پر ڈاکٹر نے بلآخر آئی ایس آئی افسر کا سیل فون نمبر دے دیا-

تاہم، وہ افسر مستقل ہم سے بات کرنے سے انکار کرتا رہا، بلآخر اس شرط پر مانا کہ ہم اس کا حوالہ 'ماسٹر ایکس' کے نام سے دیں گے-

ماسٹر ایکس ہمارے ایک نامہ نگار سے زیریں سوات میں لڑکیوں کے ایک خالی اسکول میں ملا- اپنا چہرہ چھپانے کے لئے افسر نے سپائیڈر مین کا ماسک پہن رکھا تھا-

ہمارے نامہ نگار سے بات کرتے ہوۓ اس نے کہا، " یہ سب تو ایک دن سامنے آنا ہی تھا- میں اتنا خطرناک راز مزید اپنی حد تک چھپا کر نہیں رکھ سکتا- میں ایک سچا محب وطن ہوں"-

انہوں نے پھر مزید کہا: "ایک دن میرے والد نے مجھے بتایا تھا، 'پیٹر، عظیم طاقت کے ساتھ، عظیم ذمہ داری بھی آتی ہے-"

انکے انکشافات ہمیں ایک اور حیرت انگیز دریافت تک لے گۓ (ثبوت کے ساتھ):

2. ملالۓ پر حملہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ڈرامہ تھا: افسر نے نامہ نگار کو بتایا کہ حملے کا پورا واقعہ پاکستانی اور امریکی ایجنسیوں کا منصوبہ تھا تاکہ شمالی وزیرستان میں پاکستان آرمی کی چڑھائی کی راہ ہموار ہو سکے- "یہ سب ایک ڈرامہ تھا"، انہوں نے بتایا- "یہ سب اس لئے کیا گیا تاکہ پاکستان آرمی کو شمالی وزیرستان میں داخل ہونے کا بہانہ مل جاۓ-"

جب یہ پوچھا گیا کہ افسر حملے کا لفظ کیوں استعمال کر رہا ہے جبکہ شمالی وزیرستان تو پاکستان ہی کا حصّہ ہے، تو انہوں نے جواب دیا، " شمالی وزیرستان ایک خود مختار اسلامی امارت ہے اور یہ صدیوں سے ایسی ہی ہے- تاریخ کی کتابوں میں حقیقت کو مسخ کیا گیا ہے، اور بچوں کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ یہ علاقہ پاکستان کا حصّہ ہے- اس علاقے میں تیل، سونا، تانبا، چاندی، کانسی، کوئلہ، ہیرے، معدنی گیس اور ڈائناسار کی باقیات کے بڑے بڑے ذخائر موجود ہیں- اور یہ امریکی اسی کے پیچھے لگے ہوۓ ہیں-"

ہمارے نامہ نگار نے پوچھا کیا اپنے دعوے کو ثابت کرنے کا آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے-

افسر نے کچھ تصویریں نکالیں اور نامہ نگار کو دکھائیں- تصویر میں کچھ ہڈیاں دکھائی گئیں تھیں- "ڈائناسار کی ہڈیاں"، اس نے وضاحت کی-

اس نے مزید کہا: "انہیں شمالی وزیرستان سے طالبان کے آثار قدیمہ ڈویژن نے نکالا تھا- اس کے بعد طالبان کے ارضیات ڈویژن نے ان کا مطالعہ کیا، ان میں تیل، سونا، تانبا، چاندی، کانسی، کوئلہ، ہیرے اور گیس کے نشانات پاۓ گۓ-"

اور اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ملالۓ پر حملے کا ڈرامہ امریکی اور پاکستانی ایجنسیوں نے رچایا تھا؟

کاغذ کا ایک ٹکڑا نکال کر ڈاکٹر نے کہا، "یہ ہے ثبوت، اسے طالبان کے کوانٹم فزکس ڈویژن نے ڈیکوڈ کیا تھا-"

اس کاغذ پر کسی "لب فش" اور "آئل گل" کے درمیان ٹویٹر پر ٹویٹس کے مختصر تبادلے کے سکرین شاٹس تھے-

افسر کا کہنا تھا کہ ٹویٹر پر 'لب فش' درحقیقت قطر میں موجود ایک سی آئی اے آپریٹو تھا جبکہ 'آئل گل' لاہور میں موجود آئی ایس آئی کا کارندہ تھا- اس تبادلے کا سراغ اور اس کی ڈیکوڈنگ ایک 'سونامی مامی' نے کی، جو پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواہ میں ثوابی سے تعلق رکھتی ہیں اور پیشے کے لحاظ سے انجنیئر ہیں-

ہم یہاں افسر کی طرف سے مہیا کیا گیا، 'لب فش' اور 'آئل خان' کے درمیان ٹویٹر تبادلہ شائع کر رہے ہیں-

@لب فش یو، @آئل گل زندگی کیسی چل رہی ہے؟

@آئل گل مزے میں یار

@لب فش @آئل گل قطر آنے کے کوئی امکانات ہیں؟

@آئل گل @لب فش جلد ہی، میں ذرا اپنے او لیول امتحانات سے فارغ ہو جاؤں، بہت عاجز آگیا ہوں

@لب فش @آئل گل ہا ہا، ہاں یہ تو ہے

افسر نے بتایا اس بیچ جب سونامی مامی کو احساس ہوا کہ کیا چل رہا ہے تو وہ بھی کود پڑیں-

@سونامی_مامی ایجنٹس! میں جانتی ہوں تم دونوں کیا کرتے ہو- اسلام مخالف، پاکستان مخالف کمینوں!

@آئل گل دوست تم کون ہو اور ہمیں کیوں بور کر رہے ہو؟

@سونامی_مومی چپ کرو جھوٹے لبرل فاشسٹ ایجنٹس، عمران خان بہترین ہے، تم کمینے این اے 250 پر ایک بلین نقلی فاشسٹ ووٹ سے دھاندلی کرتے ہو، اسلام مخالف پاکستان مخالف، انشااللہ نیا باکستان! تبدیلی!

افسر نے بتایا کہ اس نے ممتاز پاکستانی زبان دان اور جنگ عظیم دوم کے کوڈ بریکر، مستنصر حسین تارڑ کی خدمات ان مشکوک ٹویٹر تبادلے کو ڈیکوڈ کرنے کے لئے حاصل کیں، اور تب اسے پتا چلا کہ سی آئی اے اور آئی ایس آئی ملالۓ پر حملے کا ڈرامہ تیار کر رہے ہیں-

افسر نے ہمارے نامہ نگار کواس کتاب کا مسودہ بھی دیا جس میں سونامی مامی نے اس حملے کے حوالے سے ڈاکٹر، افسر اور مستنصر حسین تارڑ کے مہیا کردہ ثبوت اکھٹا کیے ہیں (ثبوتوں کے ساتھ)-

اس کتاب کا عنوان ہوگا "ایک نقلی لبرل ور نقلی لبرل کے ذریعہ نقلی حملہ، کمینو!"

ذیل میں اس کتاب میں کیے گۓ دعووں کا خلاصہ دیا گیا ہے:

یکم اکتوبر، انیس سو ستانوے: ملالۓ بڈاپسٹ میں اپنے ہنگیرین والدین کے گھر پیدا ہوئی، اور اس کا نام جین ہے-

چار اکتوبر سنہ دو ہزار دو: اس کے والدین سی آئی اے میں بھرتی ہوۓ، جہاں انہیں عیسائی تبلیغی کی مختصر ٹریننگ، ہپناٹزم اور کراٹے سکھاۓ گۓ-

سات اکتوبر دو ہزار تین: وہ این جی او ورکرز کی حیثیت سے پاکستان پہنچ کر سوات کی طرف روانہ ہوۓ- انہوں نے کم درجے کے آئی ایس آئی ایجنٹ سے رابطہ کیا اور اس کی پوری فیملی کو عیسائی بنایا، اور پھر جین کو ان کے حوالے کر دیا- انہوں نے اس بچی کا نام ملالۓ رکھا جو دل سے عیسائی تھی-

تیس اکتوبر دو ہزار سات: ملالۓ نے ایک بلاگ لکھنا شروع کیا جس میں اس نے عسکریت پسندوں کو ہتھیار پھینکنے اور بائبل اٹھا لینے کو کہا-

اکیس اکتوبر دو ہزار گیارہ: عسکریت پسندوں نے اسے اپنے تبلیغی بلاگ بند کرنے اور اس کی بجاۓ اپنا ہوم ورک کرنے کی درخواست کی-

یکم اکتوبر، دو ہزاربارہ: سی آئی اے نے پشتو بولنے والے ایک اٹالین-امریکی (رابرٹ) کو بھرتی کیا جو نیویارک میں رہتا تھا، پھر اسے بندوق چلانے اور اداکاری کا ایک مختصر کورس کرایا-

سات اکتوبر دو ہزار بارہ: سی آئی اے نے آئی ایس آئی کو ملالۓ پر جھوٹے حملے کے منصوبے سے آگاہ کیا، آئی ایس آئی بھی اس منصوبے سے متفق ہو گئی، اور اس حوالے سے ملالۓ اور اس کے والدین کو بریفنگ دی-

گیارہ اکتوبر، دو ہزار بارہ: اٹالین-امریکی، ایک ازبک ہومیو پیتھ ڈاکٹر کے روپ میں سوات پنہچا-

بارہ اکتوبر دو ہزار بارہ: رابرٹ کو ایک گن دی گئی جس میں خالی گولیاں بھری تھیں- اس نے ملالۓ کی اسکول وین روک کر ملالۓ پر فائر کیے- اس نے گولی لگنے کی نقل کی اور اپنے ہاتھ میں چھپائی ہوئی مچلز ٹوماٹو کیچپ کے چھوٹے سے پیکٹ کو کھول کر کیچپ اپنے پورے چہرے پر مل لیا- ایک نقلی ایمبولینس اچانک جاۓ واردات پر پہنچی اور ملالۓ کو لے گئی- دنیا کو یہ بتایا گیا کہ اسے ایک طالبان نے چہرے اور سر میں گولی ماری ہے-

میڈیا نے جو کہانی بتائی اس کے مطابق ملالۓ کی سہیلیوں کا کہنا تھا کہ گن بردار نے پہلے ملالۓ کے بارے میں پوچھا اور پھر اسے گولی مار دی-

لیکن افسر نے ہمارے ساتھ ملالۓ کی ایک سہیلی کی گواہی شیئ کی جسے میڈیا کے وسیح مفاد میں دبا دیا گیا تھا-

اس گواہی کے مطابق، ایک شخص نے وین روکی اور پشتو میں چلایا، "جین کون ہے… میرا مطلب جینٹ … نہیں، البرٹا جوہان لوکس؟"

لڑکیوں نے حیران ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا، اور ڈرائیور وین دوبارہ چلانے ہی والا تھا کہ اس شخص نے گن نکال لی اور چلانا شروع کر دیا 'انو مومنتو، انو مومنتو...'

اور پھر ایک لڑکی سے پوچھا: "تم میری طرف دیکھ رہی ہو؟" جس پر ملالۓ نے اپنا اسکول بیگ زمین پر پھینکا اور چلائی (اٹالین میں)،"نہیں بیوقوف، میں تمہاری طرف دیکھ رہی ہوں- ملالۓ، ملالۓ، یاد آیا؟ احمق!"

اوہ! کہہ کر اس نے خالی گولیاں چلا دیں-

میڈیا پر جو لڑکی ہسپتال میں دکھائی گئی تھی وہ ملالۓ نہیں تھی- افسر نے ہمیں یہ ثابت کرنے کے لئے کچھ اور تصویریں دکھائیں- اس نے اپنے آئی فون پر ہمیں ایک ویڈیو دکھائی جو اس نے حملے کے کئی گھنٹوں بعد بنائی تھی- اس میں ملالۓ مزے سے دریاۓ سوات کے نزدیک ایک پہاڑی پر بنجی جمپنگ کر رہی تھی-

اس کے بعد افسر نے ہمیں بتایا کہ ہسپتال میں ڈاکٹر کے پاس اس لڑکی کے کان کے میل کے نمونے موجود ہیں- جب ہم نے دوبارہ ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور پوچھا ان نمونوں سے کیا ثابت ہوا تو انہوں نے بتایا کہ ان سے حاصل ہونے والے ڈی این اے سے یہ پتا چلا کہ وہ کوئی لڑکی تھی ہی نہیں، وہ تو ایک تکیہ تھا!

ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ چپکے سے آپریشن روم میں ایک ڈاکیے بن کر گھسنے میں کامیاب ہو گۓ اور جب وہ لڑکی کے کان سے میل نکال رہے تھے اسی دوران انہوں نے اپنے نوکیا فون سے اس کی تصویر بھی بنالی تھی-

"میں واپس آیا اور جب تصویر بڑی کر کے دیکھی تو سکتے میں آگیا-"

پھر انہوں نے ہمیں تصویر کا پرنٹ آؤٹ دیا-

ہمیں یقین ہے کہ پاکستانی اور بین الاقوامی کمیونٹی کے پاس اب مناسب ثبوت موجود ہیں جن کے ذریعہ ملالۓ کی کہانی پر ایک بار پھر سنجیدگی سے غور کیا جا سکے اور اقوام متحدہ سے التماس ہے کے اس معاملے کی بھرپور تحقیقات کرائی جائیں-


 ندیم ایف پراچہ ، ایک ثقافتی مورخ اور ڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (76) بند ہیں

Syed Hamza Rasool Oct 11, 2013 01:13pm
Bull shit , If CIA & ISI were involve in this story , So what is the TTP ?? Recently TTP has claimed to killing of our Major Gen and Lt Col so how we no one will trust on our agencies after reading this news !!
sas Oct 11, 2013 02:27pm
its sarcasm, you moron.
Nomi Oct 11, 2013 02:35pm
It is just bullshit?
M. Taqqi syed Oct 11, 2013 02:47pm
v funy nice nadeem sahib
AM Oct 11, 2013 02:48pm
I am 100% sure the writer was drunk @ the time of writing this so called article. Dawn people please read your material before publish it.
aownali Oct 11, 2013 03:14pm
خوب۔ ۔ ۔ مگر نوٹ زرا نمایاں لکھیں۔ ۔ ۔بہت سے لوگ اسے دیکھے بغیر پراچہ کو لعن طعن کر رہے ہیں
Malala: The Ray of Light | Revolutionist Oct 11, 2013 03:17pm
[…] in their traditional way to sow the seed of dislike in the minds of common men. Here is one example http://urdu.dawn.com/2013/10/11/malala-the-real-story-with-evidence-nfp-aq/ where they are portraying Malala as “not being […]
.Malala: The Ray of Light | Revolutionist Oct 11, 2013 03:21pm
[…] in their traditional way to sow the seed of dislike in the minds of common men. Here is one example http://urdu.dawn.com/2013/10/11/malala-the-real-story-with-evidence-nfp-aq/ where they are portraying Malala as “not being […]
aownali Oct 11, 2013 03:23pm
" اسے طالبان کے کوانٹم فزکس ڈویژن نے ڈیکوڈ کیا تھا-”
zameer afaqi Oct 11, 2013 03:28pm
آپ نے تو یہ فرضی مضموں لکھا ہے جس کا اصل حقائق سے کوئی تعلق نہیں ،،مگر آپ نے زہنی مریضوں کے جس معاشرے میں یہ مضمون لکھا ان کی اکثریت نے اسے سچا مضمون بنا کر لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو اپنا ہم خیال بنا لیا ہے ،،اب سوال یہ ہے کہ آپ نے خدمت کی ہے یا ملالہ سے دشمنی اس کا جواب آپ کو خود ڈھونڈنا ہو گا،،،،،حالانکہ ،،، آپ کی خدمات قابال تعریف ہیں مگر اس مزاحیہ مضمون کو لوگوں نے اصلی بنا دیا ہے،،اس کا ازالہ کیسے ہو پائے گا،،
محمد انور Oct 11, 2013 03:43pm
میڈیا کی شرارتوں کی ایک مثال۔۔۔ اگر آپ کو اس حساس ایشو پر کچھ چھاپنا ہی تھا تو اس کے بارے میں جو باریک تحریر میں وضاحت کی گئی ہے اسے مزید باریک یا پھر بہت موٹا کردیا جاتا تو بہتر ہوتا۔۔۔۔۔۔خدا کے لیے ایسا مذاق کرنے سے گریز کریں۔
حسین عبداللہ Oct 11, 2013 03:53pm
ویسے آجکل ایسی کہانیاں میڑک پاس لکھ سکتے ہیں لیکن پھر بھی کوشش اچھی ہے اس کو جاری رکھیں آپ محی الدین کی دیوتا تک پہنچ سکتے ہیں لیکن خدا کے لئے اس نہتی محب وطن پاکستانی الاصل لڑکی کیخلاف بولنا بند کریں کیونکہ اس کے لئے طالبان اور طالبان کے بغیر تنخواہ کے وکیل کافی ہیں
rashid Oct 11, 2013 04:37pm
This is bullshit. wonder how content is screened to publish. CONTENT CRISES.
محمد انور Oct 11, 2013 04:44pm
ڈان گروپ جیسے ادارے کو اس طرح کی تحریر شائع کرنا یا اپنی ویب سائیٹ کا حصہ بنانا زیب نہیں دیتا ۔ میرا خیال ہے کہ اس تحریر کے ذریعے پاکستانی ایجنسی کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس تحریر کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے تو اسے کیوں آن لائن کیا گیا؟ اس تحریر پر ڈان ڈاٹ کام کو اپنے قارئین سے معافی مانگنی چاہئے۔ بحیثیت صحافی میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ اس تحریر سے صحافت خصوصا الیکٹرونک میڈیا کا مذاق اڑایا گیا ہے ۔۔۔۔
lali jan Oct 11, 2013 09:40pm
کیا ڈان اب اس قسم کے مزاحیہ کالم بھی شائع کرتا ھے
wajaht Oct 11, 2013 10:05pm
hahahaha very nice... sarcasm level :D
عثمان Oct 11, 2013 10:52pm
ندیم ایف پراچہ کے اپنے مخصوص انداز میں لکھے طنریہ اور مزاحیہ کالم جس میں اس نے کانسپریسی تھیوری پر یقین رکھنے والوں پر بھپتی کسی ہے اسے قارئیں حقیقت سمجھ رہے ہیں۔ یار لفظ Sarcasm کبھی سنا ہے؟
یمین الاسلام زبیری Oct 12, 2013 01:26am
پاکستانیوں میں حس مزاح کی کمی کا اندازہ اس مضمون پر کمنٹس پڑھ کر ہوتا ہے. اصل میں تو افصوص ہوتاہے کہ ہمارے بہت سے لوگ معمولی قسم کا مزاق بھی نہیں سمجھ سکتے. اتنا کہنا کافی ہوگا کہ بھائیو اس مضمون میں ان لوگوں کا مذاق اڑایا گیا ہے جو سمجھتے ہیں کہ ملالا ایک بین الاقوامی سازش کے تحت منظر عام پر آئی ہے. مذاق کو سمجھیں، خدا سب کو مذاق کو سمجھنے کی توفیق دے، آمین.
noman daud Oct 12, 2013 02:53am
truth is always bitter,,, YOUR MEDIA is making you fool.... you guys believe whatever this electronic media shows you instead of reality BUT when someone speaks truth you took it as joke( running away from reality) :\
ماجد Oct 12, 2013 04:52am
ویسے تو پاکستانی کہانیاں بنانے میں مشہور ہیں لیکن یہ واقعی شاہکار ہے۔ جہاں تک ترجمہ کا سوال ہے ، تھوڑا سا کم درجہ کا ہے۔ میں نے انگریزی میں بھی اس فکشن کو پڑھا ہے، بڑا زبردست ہے!
Ali Oct 12, 2013 05:06am
Lolz. ... Some of the comments are funnier than the article itself ...conspiring Pakistani brains never seem to stop pondering ... Btw guys...this is sarcastic ... Don't take it the wrong way.
اجمل Oct 12, 2013 06:17am
اس مضمون میں کتنا سچ ہے یا جھوٹ یہ تو خدا جانتا ہے لیکن میرا دل مانتا ہے کہ یہ ایک ڈرامہ ہے ملالہ ....
عرفان ندیم Oct 12, 2013 06:59am
ملالہ کو ھیرو بنانے والو آج کے روزنامہ دنیا میں اوریا مقبول جان کا کالم پڑھ لو ساری حقیقت سمجھ آ جائے گی.ایک بار ضرور پڑھ لو آنکھیں کھل جائیں گی.
asif Oct 12, 2013 09:47am
u make such a fucking shit story. mother fucker u waste my time. fuck u and ur whole family. MALALA IS MY HERO..
ANEEQA AKHTAR Oct 12, 2013 10:16am
THE WRITER OF THIS STORY IS REAL HERO.
huma Oct 12, 2013 10:18am
Lol!!! WELL WRITTEN!
zafar khan Oct 12, 2013 12:36pm
اللہ کا شکر ہے ملالا نوبل پرائز نہ جیت سکی اس بے غیرت پاکستانی قوم کے حسد جلن اور دشمنی میں کچھ کمی آئ ہوگی یہ وہ بے شرم پاکستانی قوم ہے جسس کو اپنے اوپر جوتے پڑنے پر بھی سازش نظر آتی ہے اور اپنی کسی پھول سی معصوم بچی کو دہشتگرد کافروں کی گولی سے بچ جانے میں بھی سازش نظر آتی ہے ورلڈ بینک سے بھیک مانگتے ہوے فخر ہوتا ہے ملالا کو نوبل پرائز مل جانے کی امید ہو تو پیچش کی بیماری ہوجاتی ہے شکر کرو ملالا تم نوبل پرائز سے محروم رہیں کچھ تو تمھاری پاکستانی جاہل قوم تمہارا پیچھا چھوڑ دے گی
Mansoor Malik Oct 12, 2013 01:00pm
Please be requested that, Who Love Malala must read this article: http://dunya.com.pk/index.php/author/orya-maqbool-jaan/2013-10-12/4644/48170810#.UllGbhA9Z30
وحید سلطان Oct 12, 2013 01:18pm
زبردست تحریر جناب پراچہ صاحب. ہماری قوم اصل میں ایک ایسے خودساختہ خول میں بند ہوچکی ہے جہاں اسے اپنا دشمن بھی دوست نظر آتا ہے. اور جہاں ہر چیز کیلئے امریکہ اور مغرب کو موردِ الزام ٹھہرانا اور سونامی پر آنکھیں بند کرکے یقین کرلینا ایک فیشن ہے. دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کی اس نہ ختم ہونے والی سرمائی نیند کا جلد خاتمہ فرمائے. آمین.
atif Oct 12, 2013 02:22pm
nice information. agar is news par kuch hota hai to behter hai .
Naeem Khan Oct 12, 2013 02:25pm
This is totally mendacious report about Malala and her family.No Doctor on the name of Imtiaz Ali exist in Swat since 2005.
یمین الاسلام زبیری Oct 12, 2013 05:23pm
Ali it is not the Conspiring Pakistani Brains, in fact it is lack of Sense of Humour. Lack of sense of humour tells us that the country has very poor quality of educational institution. You will find highly educated Aligarians with highest sense of humour.
Kibria Siddique Oct 13, 2013 05:02am
No doubt the writer is very intelligent. He can express his view very forcefully. But I think there should be an impartial international just international agency which should have authority to decide such type of matter. So we type of people reach the truth without any prejudice. Such just agency should be based on some just and human lover people for example Nielsen Mandila Berand Russel, Noam chomaskey Mahteer Muhammad type of personalities should be appointed for that agency. So that the people may know the true story.
HY Oct 13, 2013 10:04am
This is a fabricated story, it's only aim is to malign Mala,I think the writer will himself lose his reputation by writing such type of stories( a big lie)
Kibria Siddique Oct 13, 2013 11:09am
thinking material
محمد انور Oct 13, 2013 01:37pm
اس تحریر کا مقصد صرف یہ ہے کہ ملالہ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے ؟ ملالہ ملک اور قوم کے لیے کچھ بدنامی کے سوا کچھ بھی نہیں کررہی ۔۔۔اس کے گائوں میں اب بھی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے ، اس کے علاقے کے قریب ڈرون بھی گررہے ہیں ۔۔۔کیا کوئی ڈرون کے خلاف بھی لکھے گا؟
awanz9 Oct 13, 2013 02:00pm
پراچہ صاحب مزاح بھی خوب لکھتے ہیں .. گرچہ یہ مزاح ہے لیکن ملالا کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہو گی
یمین الاسلام زبیری Oct 13, 2013 05:28pm
کڑوڑ رپے کا سوال یہ ہے کہ ڈرون حملے کیوں ہو رہے ہیں؟
کمال Oct 13, 2013 07:36pm
لعنت ہے اس مضمون کے لکھنے والے اور شایع کرنے والوں پر۔
erum Oct 14, 2013 06:03am
critic plus fun nice article after long time
Jackie Oct 14, 2013 10:23am
Nadeem Paracha has a good sense of humour... otherwise seems to be nonesense!
zaeema Oct 14, 2013 03:41pm
great !! magar yeh jis level ka article hai humari qoam ki soch abhi us level tak nahi gai hai :)
امام دین Oct 15, 2013 03:36am
ایک اور ترجمہ بھی پیش خدمت ہے۔ http://tinyurl.com/l37d38d
ابوبکر بلوچ Oct 15, 2013 08:49pm
بھئی ہم تو مشکوک معاشرے میں رہتے ہیں ،، ویسے اس ملک میں کچھ بھی بعید نہیں ہے۔۔ باقی اللہ اللہ خیرصلہ
azeem hassan Oct 16, 2013 08:06am
Jo log apni guftugu main os munafaq ka hawal dain un ki aqal itni he ho ge jitni ap ki hy
umar Oct 17, 2013 05:36pm
hur bunda janta h kh mala ka drama kio ar kic lye chalaya ja raha h.ic may koi shuk nhe kh pakistan k hur department may chahy wh media he kio na ho pakistan dushman anasir kam kr rahay hn.ar mala ak pakistan dushman anasir ki he sazish h.koi ic pr bahis krna chahy to shouq cy
A Pakistani Oct 18, 2013 06:42pm
Although I have read the disclaimer before reading the article, even though i thought it was true. Anyhow I read it again and again until I believe it is a fiction....
Rasa AI Oct 18, 2013 11:12pm
bhai saab is ko 10 bar parho. shaid kuch palay par jae??
Rasa AI Oct 18, 2013 11:14pm
tanz o mazah hay janab. ek bar phir parhey
Rasa AI Oct 18, 2013 11:16pm
Note zaror parh lia karain.
Fahimullah Oct 19, 2013 02:59am
hainnnn................
tayyab Oct 19, 2013 11:59am
:) :) :)
shakir merani Oct 20, 2013 09:59am
dear brothers and sisters please read note on the top ==: یہ ایک طنزیہ اور فرضی مضمون ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں
Inayat Oct 20, 2013 09:08pm
TTP is also a part of this story and agents of CIA and ISI....
saqib Oct 21, 2013 12:38pm
I think the real story may not be much different from what it is described above
Kings eleven Oct 23, 2013 07:02am
Uff ! Babu muje to pehle shak tha k kuch chakar chala he yahan pr. Thanksdawn walo ap such nahe likhen ge to kn likhe ga.
eshall Oct 23, 2013 09:26am
jo b proof hai ap kay pass un ko b medeaa my lay takay haqeeqat sub ko pataa chalaay agr pakistan say mohbaat ha es trha btooo say kuch hasil nhi
Mansoor Khan Oct 25, 2013 02:57pm
some how this sarcasm is in support of malala's theory....
KNET BOOK Oct 25, 2013 05:09pm
ویسے سوچنے کی بات ہے کے کان کے درد پر ڈی این اے کون کرواتا ہے؟
ملالہ ایک فتنہ ہے ساکر خان Oct 27, 2013 12:58pm
ملالہ ایک فتنہ ہے pakistani hate malal ve hate mlala
Shahid Irshad Oct 28, 2013 11:36pm
Its a sarcasm....
Shahid Irshad Oct 28, 2013 11:38pm
This translation is even better; I have read another translation don't remember if it was in Dawn.com or where it was simply pathetic...
Shahid Irshad Oct 28, 2013 11:48pm
پہلی بات ہے کہ یہ ایک فرضی کہانی ہے جو ہمارے لوگوں کے سازشی تھیوریوں کو فروغ‌ دینے کے قومی مزاج پر طنزیہ طور پر لکھی گئی ہے- مضمون کے شروع میں نوٹ ملاحظہ فرمائیں- دوئم یہ کہ آپ نے سوچنا؛ مضمون کو پڑھنے سے پہلے ہی شروع کر دیا؟‌ مضمون میں یہ نہیں کہا گیا کہ یہ ٹیسٹ ملالہ نے کان میں‌ درد کے لئے کروایا بلکہ یہ لکھا ہے کہ ڈاکٹر نے اس کے کان کے چیک اپ کے دوران ڈی این اے سیمپل حاصل کر لیا (جو اس کا مشغلہ ہے) اور ڈی این اے ٹیسٹ‌ کہیں بعد میں‌ کروایا ہوگا... لیکن صاحب یہ ایک فرضی سٹوری ہے آپ دماغ پر زور نا دیں...
Shahid Irshad Oct 29, 2013 03:22am
اگر آپ اس کا جواب جاننے میں سنجیدہ ہیں تو آپ کو اس سوال پر کروڑ‌ روپے لگانے کی ضرورت نہیں- اسکا جواب تھوڑا پیچیدہ ضرور ہے لیکن اتنا بھی مشکل نہیں کی سمجھ ہی نا آئے-
akhter Oct 29, 2013 07:19pm
dawn say aisay Muzmoon ki twuque nahi thi,o please is buchi ko chore dain,humari agecies nay kitna khurch ker dala hayis kay peechay.
akhter Oct 29, 2013 07:23pm
agreed,dentist nay DNA test chuppa ker rukh dya,ha ha hayay saray afsanay is jahilu kay mulk main hi hit ho sukta hay,
akhter Oct 29, 2013 07:26pm
swal kuror rupee ka nahi millions dollers ka hay jo humaray respect able log is say kha rahay hain aap kay sumujh main nahi aaiay ga.
akhter Oct 29, 2013 07:29pm
Very true.
akhter Oct 29, 2013 07:33pm
zahini Mareezou ki Society,so true
hasan Oct 30, 2013 12:27am
bohat bohat bohat ala dear. hans hans k bura haal hai. iss se mazze ka tanz nahi ho sakta tha choti soch waalun pe. dunger insano dekho tau sahi k humaari beti ka cause kia hai. woh taleem k peeche parri hai aur hum khote log usse he bura bana rahe. hum pe hazar baar lanat hai. issi liye aaj iss qom ka yeh haal hai. duffers fools abhe bhe insan k bache bano aur insaniat seekho naake talibaniat. jo taleem k haq main nahi woh Allah se jung kar rahe. pehli Ayaat main pehla word Iqra tha. kuch tau hosh k nakhun lo aur blam game band karo. woh bechari apna munh kharab karwa bethi aur yahan abhe bhe sab ko darama lagta hai. lanat hai hum sab pe.
sadiaa Oct 30, 2013 09:29am
https://www.facebook.com/photo.php?fbid=529730377110601&set=a.507110616039244.1073741826.505870656163240&type=1&theater اس سٹوری کی صداقت کا پول تو پاکستان ٹی وی والوں نے خوب کھول دیا ہے کہ آپ صرف comments اور like لینے کے لئے ایسی کہانیاں گھڑتے ہیں
sadiaa Oct 30, 2013 09:50am
آئی ایم جاہل جن حضرات کو پاکستان کے علم و عقل کا سومنات سمجھتا تھا اور دِل سے عزّت کرتا تھا، کل ٹی وی پر وہی ایک دوسرے کو "تُو جاہل ہے" – "نہیں۔ تُو جاہل ہے" کہ کر اندھوں کی طرح پٹھو گرم کھیل رہے تھے۔ چلو اچھا ہوا۔ کئی بُت ٹوٹ گئے اور کئیوں کے دِلوں کی کالک سامنے آگئی۔ پروگرام کا موضوعِ سخن و گُل افشانی و گالم گلوچ ، ہماری قوم کی غدار بیٹی ملالہ کی کتاب "آئی ایم ملالہ" تھا۔ اوریا مقبول جان کا اعتراض تھا کہ کتاب میں سلمان رُشدی کی "شیطانی آیات" لکھنے کی حرکت کو حقوقِ آزادئ رائے کے تحت حلال قرار دیا گیا ہے۔ اور یہ کہ اس میں قادیانیت کے حق میں لکھا گیا ہے۔ انصار عباسی کو اعتراض تھا کہ کتاب میں کہیں بھی آنحضرت کے نام کے ساتھ "پیس بی اپون ہِم" یعنی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نہیں لکھا گیا۔ پرویز ہود بھائی کا کہنا تھا کہ یہ دونوں حضرات جھوٹ بول رہے ہیں۔ کتاب میں اسلام کے حوالے سے کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ ان تینوں نے کل کسی پرانے ذاتی عناد کی بناء پر اخلاقیات کی تمام حدیں پار کر دیں۔ غور فرمائیں۔ قوم کے تین قابل فخر سپوت کِس قسم کی بکواسیات کر رہے تھے۔ "یہ جھوٹ بول رہے ہیں، ان کو شرم آنی چاھیئے!" "یہ کس قسم کے جاہل کو آپ نے یہاں بٹھایا ہے جِس کے لیے اِسلام شرمندگی ہے" (واضح رہے، جاہل نے اِسلام کے بارے کہیں بھی شرمندگی ظاہر نہیں کی تھی) - "آپ فزکس میں ایم اے ہو کہ انگریزی میں ایم اے ہو۔؟" - کیسے نامعقول لوگوں کو آپ بُلا تے ہیں؟ - آپ ہیں کِس قسم کی چیز؟ - آپ کو مانتا کون ہے؟ - آپ اُن پڑھے لکھے جاہلوں میں شامل ہے، جن کو اپنے دین سے شرم آتی ہے۔ - آپ کو شرم آنی چاھیئے ، آپ جھوٹ بول رہے ھیں - آپ کو تو بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔- کیسے بولا آپ نے کہ ہم نے جھوٹ کہا ہے۔آپ نے یہاں صرف زہر پھیلایا ہے۔ او چھوڑو۔ بس زیادہ بات نہیں کرنا – (چیختے ہوئے)اِس شخص کو چُپ کرائیں۔ اِ س شخص کو چُپ کرائیں۔ - جاہل آدمی ! جاہل کہیں کا - تُم جاہل آدمی ہو ہود بھائی۔ تُم جاہل ہو - انصار عباسی! تُم جاہل ہو - ہود بھائی کو اگر انگریزی آتی ہے، اگر! کیونکہ یہ فزکس کے ایم اے ہیں۔ انگریزی کے نہیں۔ یعنی کہ چیک کریں پاکستانیوں کو۔ جب بات کریں تو باتوں سے خوشبو آئے وغیرہ وغیرہ۔ اس پروگرام میں کیے گئے دعووں کی حقیقت یہ ہے۔ ملالہ کی کتاب میں سلمان رُشدی کی شیطانی آیات کا ذکر موجود ہے۔ یعنی کہ اوریا اینڈ عباسی جھوٹ نہیں بول رہے تھے۔ لیکن پورا سچ بھی نہیں بول رہے تھے۔یہ بات کِس تناظر میں ہے، جن لوگوں کو انگریزی آتی ہے، اور انہوں نے فزکس میں ایم اے نہیں کیا ہوا، اُن کے لیے یہ سمجھنا کافی آسان ہے کہ کیا گیم کھیلی گئی ہے اور سُرمہ بتا کر معصوم قوم کی آنکھوں میں کیا جھونکا گیا ہے۔ فرماتی ہیں کہ میرے پِتا جی کالج کے دنوں میں بڑی بحثیں کرتے تھے۔ ان میں سے ایک گرماگرم بحث رشدی کے ناول شیطانی آیات پر تھی۔ اس کتاب میں آنحضرت ؐ کی پیروڈی کی گئی تھی اور اس کتاب نے مسلمانوں کے جذبات کواس قدر ٹھیس پہنچائی کہ اُن دنوں لوگ اِس کے علاوہ کم ہی کسی موضوع پر بات کرتے۔ عجیب بات یہ تھی کہ جب یہ کتاب چھپی تو پاکستان میں کسی نے نوٹس نہیں لیا کہ یہ کتاب پاکستان میں دستیاب نہیں تھی۔ پھر انٹیلیجنس ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے ایک مولوی نے اخباروں میں کالم لکھے کہ کتاب میں کیا گند گھولا گیا ہے اور توجہ دلائی کہ اچھے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ احتجاج کریں۔ چنانچہ پورے پاکستان میں مولویوں نے مظاہرے سٹارٹ کر دیے۔ سب سے پر تشدد مظاہرہ بارہ فروری 1989 کو ہوا جب امریکن سنٹر کے سامنے امریکی جھنڈے جلائےگئے۔ (حالانکہ پبلشر اور رشدی برٹش نیشنل تھے)۔ مطلب کہنے کا یہ کہ رُشدی نے جو کیا سو کیا۔ لیکن پاکستانی خفیہ اداروں نے اپنے کٹھ پُتلی مہروں کے ذریعے اِس موقع کو پاکستان میں امریکہ کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔ ( کیونکہ امریکہ پاک فوج کے بجائے بینظیراور جمہوریت کو سپورٹ کر رہا تھا؟)۔ پھر رقم طراز ہیں کہ میرے والد کے کالج میں اِس کتاب پر مباحثہ ہوا۔ کچھ نے کہا کہ کتاب پر پابندی لگنی چاھیئے، جلا دینا چاھیئے، اور قتل کے فتوے پر عمل ہونا چاھئیے۔ میرے والد بھی کتاب کو اسلام کے خلاف سمجھتے تھے۔ لیکن آزادئ رائے پر ایمان رکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کتاب پڑھ کر اس کے خلاف اپنی کتاب لکھ کر جواب دینا چاھیئے۔ ان کا فرمانا تھا کہ کیا اسلام اتنا کمزور ہے کہ اپنے خلاف ایک کتاب کو برداشت نہیں کرسکتا۔؟ ملالہ کے ابّے کی بات میں وزن ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم شیطانی آیات جیسی کتاب کا جواب نہیں لکھ سکتے۔ انصار عباسی کی طرح یہ کتاب میں بھی پڑھ چکا ہوں۔ اِس میں کافی بکواس لکھی گئی ہے اور حضورؐ کے بارے لغوٹھٹھہ مذاق کیا گیا۔ (سب جانتے ہیں کہ بے بنیاد ٹھٹھے مذاق کا بہترین جواب الخاموشی ہے۔)۔ اگر اِس کتاب کو اتنی توجہ نہ دی جاتی ، اور کتابیں خرید خرید کر جلانے (اور رُشدی کی رائلٹی میں نتیجتاً اضافہ کرنے) کی بجائے اِس شخص کو پاگل سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا تو رُشدی مغرب کی آنکھوں کا تارہ نہ بنتا۔ مزید یہ کہ مولوی مظاہرے نہ کرتے، رافضیوں کا امام قتل کا فتوٰی نہ دیتا تو لاکھوں بندے حضورؐ کے بارے بکواس سے لبریز یہ کتاب پڑھتے ہی کیوں؟۔کہیں یہ یہودی سازش تو نہیں؟ سب جانتے ہیں مسلم دنیا میں جس سودے کو بیچنا مقصود ہوتا ہے، اُس کو متنازع بنا کر بین کر دیا جاتا ہے۔ ریٹنگ اپنے آپ اوپر!!! ہیں جی۔ معاشروں کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاھیئے کہ لوگوں کے نزدیک مقدس ہستیوں اور عقائد کا غیر سنجیدہ ٹھٹھہ مذاق بنایا جائے۔ البتہ معاشرے کے اِن مقدس ستونوں کے بارے حقائق پر مبنی سنجیدہ تجزیہ یا مہذب بحث گستاخی کے زمرے میں نہیں آتی۔ رُشدی کا عمل مسلمانوں کے لیےآزادئ رائے کے تحت تب ہوتا، اگر اس میں سنجیدہ علمی بحث ہوتی (جو کہ نہیں تھی)۔ یہ بھی سمجھنا چاھیئے کہ آزادئ رائے کا مطلب دو مختلف کلچرز میں مختلف ہو سکتا ہے۔ مغرب اپنے ہر مقدس ستون کو ڈھا چکا ہے، اور ان کے لیے اپنے کسی بھی شخص کا کسی بھی بناء پر مذاق اڑانا بڑی بات نہیں۔ لیکن مشرق میں ایسی صورتحال نہیں۔ ادھر لوگ ابھی بھٹو، نواز شریف اور عمران خان نامی بُتوں کی آنکھیں بند کر کے پوجا کر رہے ہیں اور شرک ترک کرنے پر تیار نہیں۔ ویسے ابھی ابھی ایک فاسد خیال دل میں آیا کہ ہم ہزاروں میل دور ہونے والی گستاخی کو برداشت نہیں کرتے لیکن، خود ہر روز کسی نہ کسی کا بے بنیادفحش مذاق بنا کر دھڑلے سے عملی طور پر سلمان رُشدی بنے پھرتے ہیں۔ مذہبی ہستیاں اور عقائد چھوڑیں، اس "آزادئ رائے" کا استعمال کرتے ہوئے ہم اپنے اردگرد کے ہر بندے کا مذاق بناتے ہیں، لیکن چاہتے ہیں کہ ہمیں معاف رکھا جائے۔ کیا یہ کُھلا تضاد نہیں؟ بات واپس ملالہ کی طرف ملالہ نے شیطانی آیات کے حوالے سے کوئی "بکواس" نہیں کی، اور یہ کہ اوریا مقبول جان اور عباسی صاحب کا فرمانا کہ کتاب میں پتہ نہیں کیا گستاخی کی گئی ہے، غلط ہے۔ یہ دونوں آدھے سچ اور آدھے جھوٹ بول کر معصوم عوام کے جذبات ملالہ کے خلاف ابھار رہے ہیں۔ غالباً سلمان تاثیر کی طرح ملالہ کو بھی جھوٹا الزام لگا کر اِس دفعہ توہین رسالت کے الزام میں مروانا چاھتے ھیں۔ یا پھر غالباً میری انگریزی کمزور ہے کیونکہ میں نے فزکس میں ایم اے کیا ہوا ہے۔ اب آئیں دوسری بات کی طرف ایک جگہ کے علاوہ کہیں بھی "پیس بی اپون ہم" کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ کتاب ملالہ نے نہیں بلکہ اُس کی خالہ کرسٹینا لیمب نے لکھی ہے۔ ہودبھائی کی بات صحیح ہے کہ پبلشر ٹارگٹ مارکیٹ کے حساب سے کتاب کا متن تبدیل کرتا ہے۔ اس کتاب کے اردو ترجمے میں آنحضرت کا نام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی چھپے گا۔ تیسرا الزام یہ کہ قادیانیوں کے حق میں بات کی گئی۔ تو یہ متن ملاحظہ کریں۔ فرماتی ہیں کہ ہمارے ملک کی اٹھارہ کروڑ آبادی میں 96 فیصد مسلمان ہیں۔ اِس کے علاوہ دو ملین عیسائی اور دو ملین قادیانی ہیں جو کہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن گورنمنٹ نہیں مانتی۔ اِن اقلیتوں پر اکثر حملے ہوتے ھیں۔ غور کریں۔ قادیانیوں اور عیسائیوں کا ذکر ایک ہی جملے میں ہے۔ یعنی؟ قادیانیت کے حق میں کہاں لکھا گیا ہے، اگر کسی پڑھنے والے کو معلوم ہو تو مطلع کرے۔ اب یہ مت کہیے گا کہ حملوں کی بات کر کے مسلمانوں کو بدنام کیا گیا ہے!!! قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ مومنو۔ جب کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو بات کی تحقیق کر لیا کرو۔ پڑھنے والوں پر لازم ہے کہ وہ مجھ فاسق پر یقین نہ کریں۔ بلکہ ملالہ کی کتاب دیکھ کر اوپر دیے گئے ریفرنسز کی تحقیق کر کے اوریا مقبول جان، انصار عباسی اور ہودبھائی کے بارے اپنی رائے بنائیں۔ اوریا مقبول جان اور انصار عباسی نے انتہائی گھٹیا حرکت کرتے ہوئے خُشکے کو گھیرنے کی کوشش کی۔ اگر خُشکہ محتاط نہ ہوتا تو آج قتل کا فتوٰی گلے میں لے کر پِھر رہا ہوتا۔ اگر یہی بحث اوریا مقبول جان اور انصار عباسی انہی دلائل کی بنیاد پر کسی مغربی ملک میں لبرلز کے ساتھ کرتے، تو ان کے پرخچے اُڑ جاتے۔ اس پروگرام میں ظفر ہلالی نے سچے میچور شخص ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے طوفان بدتمیزی میں بالکل حصہ نہیں لیا۔ باقی تینوں کو بھی خاموش ہی رہنا چاھیئے تھا۔ اپنی عوام کسی کمزور یا نرم انداز گفتگو والے بندے کے پیچھے عموماً نہیں لگتی۔ شائد اِس کی وجہ پاکستانیوں کی پرورش کا ایک مخصوص سٹائل ہے۔ ہم جھاڑیں، جھاڑو اور جوتے کھا کر پرورش پاتے ہیں۔اسی لیے جب تک کسی کا بولنے کا سٹائل "دبنگ" نہ ہو، ہم پر اثر نہیں ہوتا۔ جب بندہ گردن اکڑا کر، گلے کی رگیں پُھلا کر، پورے اعتماد کے ساتھ دھاڑ رہا ہو، تبھی ہمیں لگتا ہے کہ بندے کی بات میں وزن ہے۔ زید حامد، طاہر القادری، ڈاکٹر اسرار، حمید گُل، طارق جمیل، عمران خان سمیت بہت سوں کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ (ویسے اگر بندہ نواز شریف یا زرداری وغیرہ کی طرح نرم زبان کا ہو لیکن ہمیں روٹی شوٹی ڈالتا ہو، تب بھی ہم اُس کے ساری زندگی کے لیے اُس کے ڈائی ہارڈ فین ہو سکتے ہیں۔ ) ماخوذ
Sahir Niazi Oct 30, 2013 11:32am
Agar is ka haqeeqat se koi taaluq nhn to ap ne publish kyon kia? Logon ko q gumrah krte ho ap?
Ch. M. Asif Shiraz Oct 31, 2013 06:01am
its very sad for us but we are proud on you reporters. I solute your investigation team. Thanks. ch. Muhamman Asif Shiraz President / Social worker First Step Welfare Org. Reg. Sailkot.
usman Oct 31, 2013 01:45pm
sir i really want to talk with you about this topic ... i have few personal questions..
یمین الاسلام زبیری Nov 03, 2013 07:06pm
رسا صاحب میں نے اس مضمون کو ایک ہی بار میں پڑھ کر سمجھ لیا. اور صیا صاحبہ میں نے وہ پرہگرام بھی دیکھ لیا ہے جس میں سب ایک دوسرے کو جاہل کہہ رہے ہیں.پرویز ہوبھائی اگرچہ اپنی جگہ سہی ہیں لیکن ان کی غلطی ہے کہ انہوں نے صبر سے سامنے والے کی بات نہیں سنی اور اس کا جواب اطمنان سے نہیں دیا. وہ خوامخواہ بحس میں الجھ گئے جس سے ناظرین کا بہت نقصان ہوا.