محمّد حسین انوکی -- فائل فوٹو
محمّد حسین انوکی -- فائل فوٹو --.

کیا آپ نے کوئی دنگل دیکھا ہے؟ اگر آپ پنجاب میں نہیں رہتے تو امکان غالب ہے کہ آپ کو کوئی دنگل دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا ہو گا بلکہ اگر آپ آجکل کے پنجاب میں رہتے بھی ہیں تب بھی یہ امکان کہ آپ نے دنگل نہ دیکھا ہو اتنا ہی غالب ہے جتنا پنجاب میں نہ رہنے کی صورت میں۔ چلیے ہم آپ کی مشکل آسان کیے دیتے ہیں۔ دنگل پہلوانوں کی اس زور آزمائی کو کہتے ہیں جو کسی زمانے میں اکھاڑوں میں ہوا کرتی تھی۔

وقت کے ہاتھوں اکھاڑے ویران ہوئے تو پہلوانوں نے دودھ دہی کی دکانیں کھول کے لسی رڑھکنا شروع کر دی اور دیکھنے والوں کے لیے انہی دکانوں کی دیواروں پر لگے دنگل کے اشتہار اور پہلوانوں کی تصویریں باقی رہ گئیں۔

پہلوان اکھاڑوں سے اٹھ گئے تو آخر دنگل کو بھی کہیں جانا تھا سو اس نے اسمبلی ہال کی راہ لی۔ اس انتظام میں فرق یہ تھا کہ پہلے صرف دنگل دیکھنے والوں کو ٹکٹ لینا پڑتا تھا اب لڑنے والوں کے پارٹی ٹکٹ لے کر دنگل میں شرکت کرنے کا رواج پڑ گیا۔

کھیل طاقت کا تھا اس لیے اتنا لحاظ ضرور رکھا گیا کہ کوئی زور آور اگر بنا ٹکٹ لیے بھی ٹکٹ والوں کو پچھاڑتا ہوا اکھاڑے میں داخل ہو جاتا تو اپنی زورآوری کی داد میں وزارت یا مشاورت کا عہدہ پاتا۔

اس نئے انتظام نے کھیل میں کھیلنے والوں کے دلچسپی تو بڑھا دی پر دیکھنے والوں کا مزہ کچھ کم ہو گیا۔ اول تو اسمبلی کا پاس ملنا کوئی اتنا آسان نہیں تھا کہ ہر ایرا غیرا منہ اٹھا کے کھیل دیکھنے چلا جائے جو رہی سہی کسر تھی وہ مفاہمت کی سیاست نے پوری کر دی۔ اب یوں ہے کہ دنگل دیکھنے کو بہت جی چاہے تو آزاد میڈیا کے ٹاک شو دیکھنے پڑتے ہیں لیکن ان میں وہ اکھاڑے والا مزہ کہاں۔

کھیل اور سیاست کا اکھاڑہ جب ایک ہو گیا تو کھلاڑی کہاں پیچھے رہنے والے تھے وہ بھی اس میں کود پڑے۔ اس اکھاڑے میں ہم ابھی ایک کرکٹر کو ہی بھگت رہے تھے کہ جاپان سے آنے والے ایک مہمان پہلوان محمد حسین انوکی نے شرعی کن ٹٹوں اور اسلامی جمہوریت کے ہتھ جوڑٰی میں ایمپائر کا کردار ادا کرنے کی انوکھی خواہش ظاہر کر دی۔

محمد حسین انوکی اسلام کے رنگ یعنی دائرے میں داخل ہونے سے پہلے انتونیو انوکی کے نام سے جانے جاتے تھے اور فری سٹائل کشتی کے لیے مشہور تھے۔

اب جس ہتھ جوڑی میں انہوں نے ایمپائرنگ کی خواہش ظاہر کی ہے اس میں بھی ایک فریق انہی کی طرح فری سٹائل کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔ یعنی جس طرح انوکی دنگل میں گھونسا، لات، کہنی، کندھا سب استعمال کیا کرتے تھے اسی طرح طالبان دھمکی، دھماکہ، دھونس، دھول دھپا، ہر چیز سے مقابل کو زیر کرنے کے قائل ہیں۔

نا انوکی مقابلے پر اترنے کے بعد فریق مخالف سے کسی رعایت کے قائل تھے نا طالبان کو اس سے کوئی فرق پڑتا ہے کے سامنے آنے والے کا مذہب کیا ہے عمر کتنی ہے یا جنس کونسی ہے۔ لیکن سٹائل میں اس مماثلت کے باوجود ایک فرق ضرور ہے اور وہ یہ کہ انوکی دھوبی پٹکے کا دھماکہ کرنے سے پہلے فتوے کا قینچی لاک نہیں لگایا کرتے تھے۔

انوکی اسلام قبول کرنے سے پہلے بھی بہت پرجوش ہوا کرتے تھے اور ان کی مشہور لڑائیاں عام طور پر انہی مذاکرات کی طرح بے جوڑ ہوا کرتی تھیں جن میں انوکی ریفری کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

ایسی ہی ایک مشہورلڑائی وہ تھی جس میں انوکی نے محمد علی کلے سے مقابلہ کیا تھا۔ ایک باکسر اور ایک فری سٹائل ریسلر کے اس مقابلے کا بھی اسلامی جمہوریت اور طالبانی شریعت کے مذاکرات کی طرح شروع ہونے سے پہلے بہت چرچا تھا۔ ہزاروں لوگ اس مقابلے کو بھی صرف اس لیے دیکھنے کے منتظر تھے کہ آخر ایسی انوکھی لڑائی میں ہو گا کیا۔

جب مقابلہ شروع ہوا تو ہمارے مذاکرات کی طرح یہ طے نہیں ہو پا رہا تھا کہ اس کے اصول کیا ہوں گے۔ مقابلے کے آغاز میں ہی انوکی نے محمد علی کلے کو اٹھا کر پٹخ دیا تو محمد علی پریشان کم تھے اور حیران زیادہ کیونکہ ان کے حریف عام طور پر دستانے سے دستانہ ٹکرانے کے بعد انہیں پنچ رسید کرنے کی کوشش تو کیا کرتے تھے لیکن ان سے لپٹ کے انہیں کندھے پر اٹھانے کی کوشش کسی نے پہلے کبھی نہیں کی تھی۔

اس مرحلے پر ججز کو لڑائی میں مداخلت کرنا پڑی اور انوکی کو بتایا گیا کہ مقابلے کے اصولوں کے مطابق وہ دھوبی پٹکا نہیں مار سکتے۔ مقابلہ دوبارہ شروع ہوا اور انوکی کو محمد علی کے دو چار پنچ برداشت کرنے پڑے تو انہیں اندازہ ہوا کہ یہ مقابلہ اتنا آسان نہیں ہو گا جتنا وہ سمجھ رہے تھے۔ انہوں نے پینترا بدلا اور رنگ کے فرش پر لیٹ کر محمدعلی کی ٹانگوں پر لاتیں رسید کرنی شروع کر دیں۔ محمد علی کو ساری زندگی یہ تربیت دی گئی تھی کہ زمین پر گرے ہوئے حریف کو نشانہ بنانا کھیل کے اصولوں کے خلاف ہے۔ نتیجہ یہ کہ محمد علی سارا وقت کھڑے لاتیں کھاتے رہے اور اپنے دستانوں کو دیکھ دیکھ کر حیران ہوتے رہے۔

انوکی اور محمد علی کے درمیان بارہ راؤنڈ کا یہ مقابلہ باکسنگ رنگ میں لڑی جانے والی لڑائیوں میں بور ترین مقابلہ گنا جاتا ہے لیکن انوکی عوام کے پر زور اصرار پر ہونے والے جس مقابلے کے ریفری بننا چاہتے ہیں وہ کافی دلچسپ ہو گا۔

مقابلے کے جو اصول اسلامی جمہوریت نے بنا رکھے ہیں ان سے فری سٹائل طالبانی شریعت کھلم کھلا انکاری ہے۔ ابھی یہ طے نہیں ہو سکا کہ اس مقابلے کے کوئی اصول ہوں گے یا اس میں بھی مقابلہ روک روک کر اصولوں پر بحث ہوتی رہے گی؟

اگر ہوں گے تو کیا وہ اصول حکومت کی مذاکرات کی قینچی میں ٹانگ پھنسانے سے پہلے طے نہیں ہونے چاہئیں؟ کیونکہ اگر حکومت مقابلے کے اصول طے کیے بنا مذاکرات کے اکھاڑے میں اتر گئی تو وہ محمد علی کلے کی طرح حیران کھڑی آئین کے باکسنگ گلوز کو دیکھتی رہے گی اور طالبان شریعت کے گدے پر آرام سے لیٹ کر اسے لاتیں رسید کرتے رہیں گے۔

اگر طالبانی شریعت اسلامی جمہوریت کو دھوبی پٹکا لگا کے اس کے سینے پر چڑھ بیٹھی تو کیا انسانی حقوق کا کوئی انوکی شریعت کو مقابلے کا قانون بتانے کی پوزیشن میں ہوگا؟ کیونکہ فری سٹائل ریسلنگ میں تو ریفری بھی اکثر پٹ جایا کرتے ہیں۔

اگر طالبانی شریعت نے اسلامی جمہوریت کا ٹینٹوا دبا لیا تو جس عوام کی پرزور فرمائش پے دنگل ہو رہا ہے وہ حکومت کا سانس ٹوٹنے سے پہلے چھڑانے کو اکھاڑے میں کودیں گے؟

ہم انوکی اور محمد علی کا مقابلہ دیکھنے کے لیے اتنے پر جوش ہیں کہ ہم نے ان سوالوں کے بارے میں نہیں سوچا۔ ان سوالوں کا جواب دینا آسان نہیں ہے لیکن اس سے بھی زیادہ مشکل کام جاپان سے آئے ہوئے انوکی کو یہ سمجھانا ہے کہ ان کا نام محمد حسین انوکی ہے اس لیے جب وہ مذاکرات کی دعوت دینے کے لیے جائیں تو اپنا شناختی کارڈ اسلام آباد بھول جائیں ورنہ ان مذاکرات سے پہلے انہیں بازیاب کروانے کو علیحدہ سے مذاکرات کرنے پڑیں گے۔


Salman Haider شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں

تبصرے (0) بند ہیں