بنگلہ دیش میں کل جماعتی عبوری حکومت کی تجویز

ڈھاکہ: بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے جمعہ کے روز تمام جماعتوں کو عبوری حکومت کی تجویز دی ہے جس کا مقصد آئندہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات پر تعطل ختم کرنے ایک کوشش ہے، جس میں حزب اختلاف نے احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
تجویز اس وقت سامنے آئی ہے جب بنگلہ دیش کی اہم اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے حکومت کے تحت یا حسینہ کی قیادت میں عبوری انتظامیہ کے تحت انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
بی این پی کی رہنما خالدہ ضیا نے ایک غیر جانبدار نگران حکومت کے تحت انتخابات کا انعقاد کرانے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے حامیوں سے پچس اکتوبر سے رکے بغیر مسلح احتجاج کا کہا ہے۔
حسینہ نے ٹیلی وژن میں قوم سے خطاب میں کہا ہے کہ ہمارا مقصد صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہے لہذا میں حزب اختلاف کی جماعتوں کو تجویز دے رہی ہوں کہ وہ اپنے پارلیمانی رکن کے نام ہمیں بھیجے تاکہ ہم انھیں عبوری مدت کی حکومتی کابینہ میں شامل کریں۔
انہوں نے کہا میں حزب اختلاف کے رہنما سے کہتی ہوں کے کہ وہ میرا جواب دیں اور میں ان کی درخواستوں پر غور کروں گی۔
بی این پی کی جانب سے فوری رد عمل نہیں آیا لیکن نگران حکومت کی تشکیل کے لئے اپوزیشن نے ایک ڈیڈ لائن کے طور پر 24 اکتوبر مقرر کیا ہے۔
سیاسی طور پر غیر مستحکم بنگلہ دیش میں کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے ایک سینیئر بی این پی کے رہنما نے اپنے حمایتیوں سے کہا ہے کہ خنجروں اور چھریوں کے ساتھ اپنا احتجاج کریں تا وقتکہ ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے۔
امریکہ اور اقوامِ متحدہ نے دونوں خواتین رہنما، حسینہ اور خالدہ ضیا سے درخواست کی ہے کہ وہ عشروں سے جاری سیاسی عداوت ختم کریں اور ڈائیلاگ شروع کریں۔ ان دونوں خواتین کو ' لڑاکا بیگم' کہا جاتا ہے۔
2007 میں انتخابات کی منسوخی اور ملک کی طاقتور فوجی قیادت کے زیر سایہ نگراں حکومت کے بنے کے بعد تشدد میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔
جنوری 2014 کے انتخابات سے قبل رائے عامہ کے مطابق بی این پی کو مضبوط پوزیشن حاصل ہے۔