امریکا ڈرون حملے قانونی قرار دینے پر مصر

واشنگٹن: امریکا نے پاکستان اور یمن میں ڈرون حملوں کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے ڈرون حملوں میں کم سے کم شہری ہلاکتوں کی بھرپور کوشش کی تھی۔
امریکا کا یہ بیان ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری رپورٹ کے بعد سامنے آیا ہے جس میں اس نے ڈرون میں شہری ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے کی جانب سے منگل کو جاری ایک رپورٹ میں سی آئی اے کے ڈرون حملوں میں مبینہ شہری ہلاکتوں کے واقعات بیان کیے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے کہا کہ ہم ان رپورٹس کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں۔
امریکا کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب امریکی دورے پر موجود پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف ایک دن بعد وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات کریں گے۔
'جہاں تک رپورٹ کے اس دعوے کا سوال ہے کہ امریکا عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، تو ہم اس دعوے سے مکمل عدم اتفاق کرتے ہیں'۔
کارنی نے مزید کہا کہ انتظامیہ مستقل اس بات پر زور دیتی رہی ہے کہ دہشت گردی کے انسداد کے لیے کی جانے والی کارروائیوں کے دوران عالمی قوانین کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا نے مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف فوجی بھیجنے یا دیگر ہتھیاروں کے استعمال کے بجائے ڈرون طیاروں کا استعمال کیا تاکہ کم سے کم شہریوں کی جانوں کا ضیاع ہو۔
اس سے قبل اسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان اور یمن میں امریکی ڈرون آپریشن کے دوران بڑے پیمانے پر شہری ہلاک ہوئے۔
امریکی صدر بارک اوباما نے مئی میں ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ امریکا اس وقت تک ڈرون حملہ نہیں کرتا جب تک اسے یقین نہ ہو جائے کہ حملے میں کوئی عام شہری ہلاک یا زخمی ہوگا۔
تاہم ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ امریکا نے اپنے ڈرون پروگرام کو اس قدر خفیہ رکھا ہوا ہے کہ یہ معلوم کرنا ممکن نہیں کہ اس نے شہری ہلاکتوں کو روکنے کے لیے کون سے اقدامات اٹھا رکھے ہیں۔
امنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ امریکی کانگریس سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ وہ دونوں تنظیموں کی جانب سے مرتب دی جانے والی رپورٹس کی روشنی میں بھرپور تحقیقات کرے اور اس کے علاوہ دیگر غیر قانون حملوں کی بھی تحقیقات کرائی جائے تاکہ عوام تک انسانی جانوں کے ضیاع کے ثبوت پہنچائے جائیں۔