ڈرون حملوں پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا ، گیلانی
اسلام آباد: پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اور دیگر اعلیٰ پاکستانی حکام نے جمعرات کو ان رپورٹس کی تردید کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے پاکستانی سرزمین پر ڈرون حملوں کی اجازت دی تھی۔
بدھ کے روز واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ویب سائٹ پر جاری ایک تفصیلی رپورٹ دی تھی افشا ہونے والی خفیہ دستاویز سے ثابت ہوا ہے کہ 2011 کے آخرتک پاکستانی حکام کو نہ صرف ڈرون حملوں پر پابندی سے بریفنگ دی جاتی تھی بلکہ بعض کیسز میں انہوں نے ٹارگٹ کےانتخاب میں مدد بھی دی تھی۔
واشنگٹن پوسٹ کو موصول ہونے والی دستاویز میں ڈرونز سے فائر کئے گئے میزائلوں کے ٹارگٹ کے نقشے اور اہداف کی حملے سے قبل اور بعد کی تصاویر بھی شامل ہیں۔
اخبار کی ویب سائٹ پر یہ بھی تحریر ہے کہ ڈرون حملوں کے معاملے پر پاکستان کی رضامندی واشنگٹن اور پاکستان کے درمیان وہ راز ہے جسے خفیہ نہ رکھا جاسکا اور اس کی تشہیر ہوئی ہے۔
ڈرون حملوں پر پاکستانی رضامندی کی یہ کہانی عین انہی لمحات میں منظرِ عام پر لائی گئ ہے جب وزیرِ اعظم پاکستان نواز شریف امریکی صدر براک اوبامہ سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کررہے تھے اور ان پر زور دے رہے تھے کہ امریکہ پاکستان پر ڈرون میزائل فائر کرنا بند کرے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ نواز شریف حکومت کا ڈرون حملوں پر مؤقف بہت واضح ہے اور ماضی کا کوئی معاہدہ اب قابلِ عمل نہیں۔
واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں اس چار سالہ دور میں ہونے والے ڈرون حملوں کا انکشاف کیا ہے جو سال 2007 کے آواخر میں شروع ہوتا ہے اور اس وقت ملک میں صدر پرویز مشرف کی حکومت تھی اور 2011 کے آخر تک کا دور ہے جب ایک منتخب عوامی حکومت تھی ۔
سال 2008 سے گزشتہ سال کے وسط تک ملک یوسف رضا گیلانی ملک کے وزیرِ اعظم تھے اور انہوں امریکیوں کو ڈروں حملوں کی اجازت دینے سے انکار کیا تھا۔
' ہم نے قبائلی علاقوں میں امریکیوں کو ڈرون حملوں کی کوئی اجازت نہیں دی ،' گیلانی نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا۔
' ہم شروع سے ہی ڈرون حملوں کے مخالف رہے اور ہر فورم پر امریکیوں کو یہ باور بھی کرایا ہے۔'
اس کے علاوہ پاکستان وقفے وقفے سے باقاعدہ انداز میں ڈرون حملوں کی مخالفت اور ان پر تنقید کرتا رہا ہے جن کے ذریعے پاکستان کے نیم خود مختار قبائلی علاقوں میں طالبان اور القاعدہ جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
اس وقت پاکستان میں امریکی سفیر این پیٹرسن کی جانب سے ایک سفارتی کیبل ( پیغام) اگست 2008 بھیجا گیا تھا جس میں لکھا تھا کہ اس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے ذاتی طور پر پاکستان میں ڈرون حملوں کی اجازت دی تھی ۔ اس کیبل کا انکشاف وکی لیکس نے کیا تھا۔
' مجھے کوئی پروا نہیں آپ جب تک درست شخص کو پکڑنے کیلئے اسے جاری رکھتے ہیں ۔ ہم قومی اسمبلی میں اس پر احتجاج کریں گے اور بعد میں اسے نظر انداز کردیں گے۔' افشا ہونے والی دستاویز میں گیلانی کے امریکی حکام سے ادا کردہ یہ الفاظ تحریر ہیں۔
مشرف کے ترجمان رضا بخاری نے بدھ کے روز اے ایف پی سے کہا: ' صرف دس سے بھی کم ایسے حملے تھے جن میں عسکریت پسندوں کو ٹارگٹ کیا گیا تھا اور ان میں سے چند پاکستان اور امریکہ نے مشترکہ طور پر ایسے مقامات پر کئے تھے جہاں پاکستانی افواج کی رسائی نہ تھی۔'
واشنگٹن پوسٹ نے یہ بھی لکھا ہے کہ خفیہ دستاویز اور پاکستانی سفارتکاروں کے میموز سے ظاہر ہوا ہے ڈرون حملے کرنے والی سب سے اہم ایجنسی ، سی آئی اے نے پاکستان کے ساتھ کم از کم 65 حملوں کی دستاویز اور معلومات شیئر کی تھی اور ان پر باہمی اتفاق تھا۔
اسی طرح 2010 کے دوران ایک امریکی دستاویز میں کچھ یوں لکھا ہے، ' آپ کی حکومت کی درخواست پر' کیا گیا۔ جبکہ ایک اور سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ فلاں ٹارگٹ امریکی سی آئی اے اور پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی ( آئی ایس آئی) کی مشترکہ کارروائی تھا۔
ایک سینیئر پاکستانی سیکیورٹی آفیشل نے ڈرون مہم کے دوران کسی باضابطہ معاہدے یا اتفاقِ رائے سے صاف الفاظ میں منع کیا ہے۔
' کسی سٹریٹجک یا حکومتی سطح پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا، ' انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا۔
' ان تمام کہانیوں کا مقصد دامن بچانے کے سوا کچھ اور نہیں۔ امریکہ تمام معاملات میں پاکستان کو ذمے دار قرار دے کر خود پر بڑھتے ہوئے دباؤ کو کم کرنا چاہتے ہیں۔'
ایک اور آفیشل نے کہا کہ اب جب امریکہ پر ڈرون حملے روکنے کیلئے دباؤ بڑھ رہا ہے تو اسے ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
لندن میں واقع تحقیقاتی صحافت کے ایک گروہ کے مطابق امریکہ افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستانی علاقوں میں 2004 سے اب تک 400 ڈرون حملے کئے ہیں ۔ ان حملوں میں 2,500 سے 3,600 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
نواز شریف نے اس ہفتے امریکہ سے ڈرون حملوں کو بہت بڑی الجھن قرار دیا تھا۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چوہدری نے کہا ہے کہ ڈرون حملوں پر حکومتی پوزیشن بہت واضح ہے۔ یہ پاکستانی سالمیت کیخلاف ہیں اور انہیں روکنا ہوگا۔
' ماضی میں کوئی بھی سمجھوتے رہے ہوں یا نہ ہوں ، موجودہ حکومت کی پالیسی اس معاملے پر بہت واضح ہے۔' انہوں نے کہا ۔
تبصرے (1) بند ہیں