سپریم کورٹ کراچی رجسٹری۔ - پی پی آئی فوٹو
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری۔ - پی پی آئی فوٹو

 کراچی: آئی ایس آئی کے وکیل نے 19 ہزار کنٹینروں کی گمشدگی سے متعلق امریکی سفیر کے خط کے متن کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پاکستانی معیشت کو 65 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں قائم مقام بینچ نے سپریم کورٹ رجسٹری میں کراچی بد امنی کیس کی سماعت بدھ کے روز ہوئی۔

سماعت کے دوران آئی ایس آئی کے وکیل خواجہ ارشاد کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں اس متعلق نو رپورٹیں موجود ہیں جنہیں چیف جسٹس نے طلب کرلیا ہے۔

جسٹس افتخار کا اس موقع پر کہنا تھا اینٹی نارکوٹکس فورس، میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی اور کوسٹ گارڈز اسلحہ اور منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف مشترکہ کوششیں کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے پولیس اور رینجرز کے ساتھ مل کر ایک اجلاس منعقد کیا جائے جسکی رپورٹ کل سپریم کورٹ میں پیش کی جائے۔

اس سے قبل سماعت کے دوران عدالت میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ انیس سو چوارنوے میں کراچی لایا جانے والا اسلحہ اب بھی کراچی پورٹ پر موجود ہے۔

کسٹم کے سابق افسر رمضان بھٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ کراچی پورٹ سے نیٹو کا اسلحہ نہیں کھانے پینے کی اشیاء آتی ہیں جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر نیٹو کا اسلحہ نہیں آتا تو کراچی میں جدید اسلحہ کس طرح آتا ہے۔

ایڈوکیٹ جنرل سندھ خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ کراچی میں غیر قانونی اسلحہ کے خلاف مہم چلائی جائے گی اور حکومت پولیس اور رینجرز کی مدد سے مخصوص علاقوں میں کرفیو نافذ کرکے گھر گھر تلاشی بھی لے گی۔

اس موقع پر چئرمین ایف بی آر طارق باجوہ سے سوال کرتے ہوئے چیف جسٹ نے کہا 'آپ کو کتنے دن کا ٹارگٹ دیں جسکے بعد آپ اسمگلنگ اور ڈیوٹی چوری ختم کردیں گے۔'

'اسلحہ سے بھرے کنٹینر کراچی پورٹ پر منگوائے گئے، کس نے منگوائے اور کیوں؟'

انہوں نے کہا کہ 19 سال سے پورٹ پر کنسائنمنٹ موجود ہے اس کا حل کیوں نہیں نکالا جاسکا۔

اس پر جسٹس جاوید ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ اسلحہ کو اب تک فوج کے سپرد کردینا چاہیئے تھا۔

کیس کی سماعت جمعرات تک کے لیے ملتوی کردی گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں