اسلام آباد کے 'طالبان' بھتہ خور

شائع November 17, 2013

۔ — اے ایف پی
۔ — اے ایف پی

اسلام آباد: پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں کاروبار کرنے والے محمد کے گھر پر دو موٹر سائیکل سواروں نے سادہ بھورے رنگ کا لفافہ دیا۔

اس لفافے میں موجود خط نے محمد کے اوسان خطا کر دیے اور ان کے اگلے تین مہینے انتہائی بھیانک ثابت ہوئے۔

پاکستانی طالبان کا بینر سے مزین اس خط میں محمد کو بتایا گیا تھا کہ 'طالبان کے ایک جج نے انہیں اسلامی اصولوں پر زندگی نہ گزارنے کا مجرم ٹھرایا ہے، لہذا وہ پچاس لاکھ روپے بطور جرمانہ ادا کریں'۔

خط میں محمد (جن کا اصلی نام خفیہ رکھا گیا ہے) کو ادائیگی نہ کرنے یا پھر پولیس کو مطلع کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی۔

اس خط میں، جسے اے ایف پی نے بھی دیکھا، مزید کہا گیا 'ہمارے خود کش بمبار مذہب پر نہ چلنے والوں کو نشانہ بنانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں'۔

خط کے آخر میں جلی حروف میں کالعدم پاکستان تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کا نام اور دستخط موجود تھا۔

محمد کے پاس اس خط کے بارے میں جاننے کا کوئی طریقہ نہیں تھا، لیکن حقیقت میں یہ دستخط جعلی تھے۔

دراصل، محمد ان جرائم پیشہ افراد کا نشانہ بنے تھے جو اسلام آباد اور راولپنڈی کے امیر لوگوں کو طالبان کے نام سے خوف زدہ کر کے بھتہ مانگنے کا کام کرتے ہیں۔

راولپنڈی چیمبر آف کامرس کے مطابق اس کے ارکان سے آئے دن بھتہ کے مطالبے کیے جاتے ہیں اور بعض کیسوں میں بھتہ کی رقم ایک کروڑ تک ہوتی ہے۔

ادارے نے مزید بتایا کہ گزشتہ مہینے بھتہ ادا نہ کرنے والے ایک پراپرٹی ڈیلر کے دفتر کے دروازے پر دھماکہ خیز مواد لٹکا دیا گیا تھا۔

حالیہ سالوں میں ملک کے دوسرے شہروں کے برعکس جو مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہیں، غیر ملکی سفارت خانوں، عالمی رضاکار تنظیموں اور سرکاری و امیر طبقے پر مشتمل اسلام آباد نسبتاً پر سکون رہا ہے۔

لیکن یہاں بھی ٹی ٹی پی کا خوف ہے اور جرائم پیشہ افراد اسی خوف کی بنیاد پر رقم بٹورتے ہیں۔

متعدد سیکورٹی ایجنسیوں اور عسکریت پسند ذرائع نے محمد کو ملنے والے خط پر موجود دستخط کے جعلی ہونے کی تصدیق کی اور بتایا کہ یہ کسی بھی طرح حکیم اللہ کے دستخط سے نہیں ملتا۔

جب یہ خط محمد کو دیا گیا تو اس وقت حکیم اللہ زندہ تھے، اور ان کا نام ہی محمد کو خوف زدہ کرنے کے لیے کافی تھا۔

محمد نے بتایا 'خط پڑھنے پر میری حالت انتہائی غیر ہو گئی۔ یہ میری زندگی کا سب سے برا تجربہ تھا اور مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں'۔

'میں نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا، حتٰی کے کاروبار پر بھی دھیان نہیں رہا۔ میں اپنے اہل خانہ کے حوالے سے تشویش کا شکار تھا کیونکہ میرے بچے سکول جاتے تھے'۔

محمد نے اپنی بیوی کو بھی خط دکھایا لیکن اس کے بعد بھی وہ انتہائی خوفزدہ رہے اور پولیس سے رابطہ نہیں کیا۔

'بیوی نے مجھے کہا کہ طالبان تو پولیس اور خفیہ اداروں پر حملے کر رہے ہیں، وہ کیسے ہمیں تحفظ دیں گے'۔

خط پر ایک فون نمبر درج تھا اور فون کرنے پر دوسری جانب بات کرنے والے کا لب و لہجہ پختون تھا۔

اس کے بعد انہیں مختلف نمبروں سے کالیں موصول ہونے لگیں۔ بعد میں محمد کو معلوم ہوا کہ انہیں موصول ہونے والی کالیں طالبان کے گڑھ وزیرستان سے آ رہی تھیں۔

اس سارے معاملے سے نکلنے میں محمد کو تین مہینے لگ گئے لیکن انہوں نے یہ بتانے سے انکار کیا کہ انہوں نے رقم کیسے ادا کی۔

ایک سینیئر انٹیلیجنس افسر نے اے ایف پی کو بتایا کہ جنگجؤ پچھلے دو سالوں میں کم از کم چار کاروباری شخصیات کو تاوان ادا نہ کرنے پر قتل کر چکے ہیں اور ایسے میں شکار بننے والوں کا دھمکیوں کو سنجیدہ لینا قدرتی سی بات ہے۔

ایک اور سینیئر انٹیلیجنس افسر نے بتایا 'خود کو پاکستانی طالبان کا رکن ظاہر کرنا بہت آسان ہے کیونکہ اس کے ذریعے شکار بننے والوں پر تاثر پڑتا ہے کہ ان کا سامنا کسی عام جرائم پیشہ سے نہیں'۔

'اسی وجہ سے وہ پولیس کو آگاہ نہیں کرتے اور مجرموں سے تعاون کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں'۔

اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ اس سال بھتہ خوری کے سترہ کیس رپورٹ ہوئے جبکہ پچھلے سال ایسا کوئی واقعہ درج نہیں ہوا۔

تاہم بہت سے ایسے کیس خوف کی وجہ سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

بھتہ خوری کی موجودہ صورتحال اس حد تک تشویش ناک ہو چکی ہے کہ حال ہی میں ٹی ٹی پی نے مجبوراً ایک بیان کے ذریعے اس سارے معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔

ٹی ٹی پی کی ویب سائٹ پر جاری اس بیان میں کہا گیا 'تحریک طالبان کے نام پر پشاور سمیت تمام بڑے شہروں میں دھمکیاں دے کر بھتہ وصول کیا جا رہا ہے'۔

'ہم کسی بھی مسلمان کی دولت کو زندگی کی طرح محترم سمجھتے ہیں اور ایسے تمام کاموں سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں'۔

' جہادی سرگرمیوں میں مدد کریں'

محمد اور ان جیسوں کو ملنے والے تمام خطوں میں دھمکی آمیز لہجہ اختیار نہیں کیا جاتا۔

اسلام آباد کے ایک وکیل کو بھیجے گئے خط میں عسکریت پسندوں کی جدوجہد میں مدد کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔

خط میں بتایا گیا 'جنگجوؤں کو خوراک فراہم کرنے میں روزانہ تیس لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں اور یہ اخراجات آپ جیسے مخیر حضرات کے تعاون سے ممکن ہوتے ہیں'۔

خط میں مزید کہا گیا: اللہ نے آپ کو موقع فراہم کیا ہے کہ آپ اس جہاد میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے ہم اور ہمارے عسکریت پسندوں سے تعاون کریں۔

خط میں ہدایت دی گئی تھی کہ ' آپ اللہ کے شیروں کے لیے دو دن کھانے کا انتظام کریں'۔

ہاتھ سے تحریر کیے گئے اس خط پر بھی محسود کے دستخط تھے۔

اس خط کے جواب میں فون کالز اور خط و خطابت کی مدد سے پولیس اصل مجرموں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔

اس کیس پر کام کرنے والے پولیس افسر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ' بھتہ خور وکیل، ان کے اہل خانہ، بچوں اور ان کے دفتر سے آنے جانے کے اوقات کار کی تفصیلات سے مکمل طور پر آگاہ تھے'۔

'یہ انتہائی اہم سراغ تھا اور اس کی مدد سے تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ بھتہ خور دراصل وکیل کے گھر میں کام کرنے والے مزدور تھے'۔

ان وکیل کا ماننا ہے کہ وہ بہت خوش قسمت ہیں۔

اسلام آباد پولیس کے ترجمان محمد نعیم نے بتایا کہ بھتہ خوری کے الزام میں تیرہ افراد پکڑے گئے ہیں جن میں کچھ حاضر سرور افسر بھی شامل ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Hasan Nov 18, 2013 04:34pm
aur choopo, taliban buhut pasand hain naaa, mauj karooo

کارٹون

کارٹون : 21 جون 2025
کارٹون : 20 جون 2025