فحاشی کے سوال نے ایک بار پھر یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ آخر فحاشی کیا ہے۔ ایسی بحث جو ہمیشہ کی طرح فلسفیانہ بھول بھلیوں میں گم ہو جائے گی۔

سنسرشپ کے مخالفین دلیل دیتے ہیں کہ فحاشی کو ناپنے کا معیار ہر معاشرے میں مختلف ہوتا ہے اور ہر شخص کے مطابق بدلتا رہتا ہے لیکن اس کے حامی شک و شبہ سے بالاتر ہو کر دعوے دار ہیں کہ وہ فحاشی اوربرائی کی تمیز کرسکتے ہیں۔

یہ عورتوں کو اس طرح جاننے کہ دعوے دار ہیں جیسے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کو جانتے ہیں۔ یہ اور بات کہ پوری دنیا کے بےچارے عالموں کے لیے عورتیں صدیوں سے معمہ بنی ہوئی ہیں۔

فحاشی کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ معاشرے کےدامن کو داغ دار کر دیتی ہے اور اس بے حیائی کو دھونے کےلیے سنسر ڈیٹرجنٹ پاؤڈر ضروری ہے۔

معاشرے کے دامن کو جنگ، بھوک اور استحصال سے خطرہ نہیں ہوتا لیکن عورت کے جسم سے کپڑا کھسک جائے تو معاشرہ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

معاشرے کے دامن کا کپڑا عورت کے کپڑے سے جڑا ہوا ہے۔ ہم مغربی تہذیب کوگرمیوں میں ان کی عورتوں کے جسم پر کپڑے کے ارض و طول سے جانچتے ہیں، نہ کہ ان کے سردیوں کے لباس سے۔

یہ کپڑا دو پرنٹ میں آتا ہے: فحاشی، اوربے حیائی۔۔۔ سنسرشپ،اخلاق کے ٹھیکے دار، مذہبی عدالتیں اور مقدمے آپس میں چچااور پھپھیرےزاد بھائی ہیں۔ یہ ایک ہی خاندان ہے۔

ان کے بڑے بزرگ اخلاقی اور  سیاسی سنسرشپ، آپس میں جڑواں بھائی ہیں جو  ہمیشہ قبائلی جرگے میں ایک ساتھ بیٹھتے ہیں۔ ان کی دوستی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ اگر ایک پر حملہ ہو تو دوسرا اس کی مدد کو ضرور پہنچتا ہے۔

معاشرے کے دامن کا کپڑا عوام کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کے کام بھی آتا ہے تاکہ وہ اشرافیہ کو ننگ دھڑنگ نہ دیکھ سکیں۔

اس کپڑے سے کئی کام لیے جا سکتے ہیں۔ کھبی یہ کپڑاٹھگ کا رومال بن جاتا ہے تاکہ سیاسی مخالفوں کا گلہ گھونٹا جا سکے اور کبھی اس سے تھیلے سیے جاتے ہیں، جن میں لوٹ مار کی دولت بھری جا سکے۔ پاکستان کی آدھی زندگی میں اس کپڑے پر کلف لگا اور خاکی رنگ چڑھا ہوا تھا۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو انٹرنیٹ پر عریانی سب سے زیادہ دیکھتے ہیں۔ ہمارے اخلاق کے ٹھیکے داروں کا دھیان عورتوں کے سر سے کھسکتے کپڑے اور ننگی کمرپر زیادہ ہے۔

معاشرے کے دامن کے کپڑے کو سب سے زیادہ خطرہ غریب عوام کا کپڑے کے بِنا کمر دیکھنے سے ہوتا ہے لیکن محل نما گھروں میں انٹرنیٹ وغیرہ پرفلمیں دیکھنے سے معاشرہ محفوظ رہتا ہے۔ یہ کپڑا صرف غریب عوام کے لیے سیا گیا ہے جن کے پاس ٹی وی کے سوا اور کوئی تفریح کا ذریعہ نہیں ہے۔

یہ ہنرمند ٹیکسٹائل ڈیزائینرہر معاشرے میں صدیوں سےموجود رہے ہیں۔ کبھی یہ جادوگرنیوں کے لیے کپڑے سیتے تھے یا تصویروں اور مجسموں پر پتّے بناتے تھے۔

ماضی قریب کے ایک عظیم فیشن ڈیزائینر ایڈولف ہٹلر تھے جس نے، شاعروں، انقلابیوں اور مصنفوں کے لیے سواستک لوگو والے کپڑے تیار کیے۔

موصوف نے جرمن شاعر ہینریک ہاینے کے لیے بھی کپڑے سیے تھےجس کا مشہور فقرہ ہے: 'آج جو کتابیں جلا رہے ہیں کل وہ انسانوں کو بھی جلائیں گے۔ ' انہوں نے بالاآخر انسانوں کو ایسوچ کے عقوبت خانےمیں جلا جلا کر وہ صابن تیار کیا جس سے معاشرے کا دامن دھویا جا سکے۔ ضیاءالحق،  اورنگ زیب عالمگیر کے ہونہار شاگرد تھے جو ڈیزائینر ٹوپیاں سی کر گزر بسر کرتے تھے۔ اورنگ زیب نے اپنے پورے خاندان اور اپنے حریف دارہ شکوہ کا سر کاٹا۔ ملعون نے اس کی بنائی ہوئی ٹوپی پہنے سے انکار کر دیا تھا۔ جب ننگ دھڑنگ شیخ سرمد نے پوری طرح ملبوس اورنگزیب کا سامنا کیا تو انہوں نے کہ تھاا:

'عیبوں کو شاہانہ ملبوس سے ڈھک دیتا ہے اور بے عیبوں کو عریانی کا لباس پہناتا ہے۔' دہلی کے مشہور قاضی القضاۃ ملا قوی نےشیخ سرمد کو بِنا کپڑوں کے گھومنے پرموت کی سزا سنا دی۔ سرمد کاجامع مسجد کی سیڑھیوں کے سامنے سر قلم کر دیا گیا جو کہ اتفاقیہ طور پر دارہ شکوہ کا دوست اور ہمدرد تھا۔

دونوں جڑواں بھائیوں یعنی اخلاقی اور سیاسی سنسرشپ کا گٹھ جوڑ اٹھارویں صدی میں پوری آب وتاب پر تھا۔ افسوس،جیسے ہی اس عظیم ہنر مند درزی کی آنکھ بند ہوئی، تمام ڈیزائینر ٹوپیاں اور کپڑے مرہٹوں کو اس لباس کو تار تار کرنے سے نہ روک سکے۔

پاکستان بننے کی بعد عالمگیر گارمنٹ اسٹور دوبارہ کھل گیا ہے، جس نے قرادادِ مقاصد کو پاکستان کے دامن کے کپڑے پر ٹانک دیا۔ سعادت حسن منٹو کو'ٹھنڈے گوشت' پر 'کا لی شلوار' نہ سینے پر سزا سنائی گئی جو کہ ترقی پسند مصنف میں شمار ہوتے تھے۔ بھٹو صاحب بھی پیچھے نہیں رہے۔ انہوں نے پھلکاری والے عوامی سوٹ،احمدیوں کے لیے پرنٹڈ لان اور عوام کوجمعہ کے دن ٹوپیاں پہنانے کی کوشش کی۔ لیکن جلد ہی کلف شدہ کپڑے کے بیوپاریوں نے اُنہیں لٹھے میں لپیٹ کر گڑھی خدا بخش واپس بھجوا دیا۔

ضیاء صاحب بھی بہت بڑے ٹیکسٹائل ڈیزائینرتھے جن کا بوتیک 'اسٹارز اینڈ اسٹرپس' گیارہ سال تک چلتا رہا اور اب بھی چل رہا ہے۔ انہوں نے پنگوین سفید شلوار قمیض اور کالی شیروانی متعارف کروائی، جس کا آج بھی چرچا ہے۔

انہوں نے ٹی وی پر جلوہ گر عورتوں کے لیے خصوصی لباس سلوائے۔ معاشرے کےدامن کو سلامت رکھنے کے لیے اخلاقی سنسرشپ نے لوگوں کو گرفتاراور کوڑے مارنا شروع کیے تو دوسرے بھائی نے اخبارات اور میگزین کے لیے کپڑے سینا شروع کر دیے۔

کچھ میگزین جنہوں نے یہ کپڑے پہننے سے انکار کیاجیسے کہ 'دھنک' وغیرہ، تو انہیں بند کردیا گیا۔ لیکن اس کپڑے کو خان گڑھ میں دو عورتوں کو شہر میں ننگا گھمانے سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ کپڑا طالبان سے ملنے والی سی ڈیز اور اُسامہ کے گھر سے ملنے والی بلیو پرنٹس سے گندا نہیں ہوتا البتہ سڑک کنارے صابن کے اشتہار والے بِل بورڈوں سے اس پر داغ پڑ جاتے ہیں۔

اگر آپ ان دونوں بھائیوں کو نہ چھیڑیں تو یہ آپ کو کچھ نہیں کہتے لیکن اگر آپ بڑے بھائی سیاسی سنسرشپ کو چھیڑیں گے تو چھوٹا بھائی بھوکے شیر کی طرح آپ پر لپکے گا اور چیر پھاڑ کر رکھ دے گا چاہے آپ کے جسم پر کپڑا ہو یا نہ ہو۔


صابر نذر ایک کارٹونسٹ ہیں

تبصرے (16) بند ہیں

ا. خان Aug 15, 2012 10:00am
جب دانیشور کا کام
نادیہ خان Aug 15, 2012 10:05am
واہ واہ! کیا خوبصورت بلاگ ہے. بریخت نے بھی کہیں کہا تھا کہ میں تمہارا جھوٹ کا لباس پہننے سے انکار کرتا ہوں. اور عیسی کو دار کی خشک ٹہنی پہ کس لباس میں وارا گیا تھا؟
فھاد Aug 15, 2012 12:11pm
اس میں شک نہیں کہ میڈ یا آہستہ آہستہ بے حیا ئی پھیلا رہا ھے۔ اب کچھ پروگرام اور اشتہار ایسے آتے ہیں جو فیملی کے ساتھ نھیں دیکھ سکتے۔ مجبورا چینل چینج کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت اس کو نا پسند کرتی ہے۔
لیاقت علی Aug 16, 2012 05:28am
یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ برائی کی توجیح میں برائی ہی پیش کی جاتی ہے. اگر کسی نے زبردستی اسلام مسلّط کرنے کی کوشش کی تو اس کے جواب میں ہم اب قوم کو بےحیائی کی طرف دھکیلنے جا رہے ہیں۔ یہ لفظوں کے مداری، یہ باور کروانے کی کوشش میں ہیں کہ ہم پاکستانی اس قبل نہیں ہیں کہ ایک جمہوری اور آزاد معاشرے میں رہ سکیں۔ ہم وہ بندر ہیں جس کو آگ جلانے کا طریقہ آ گیا ہے اور یہ عنقریب اپنے گھر کو جلانے جا رہا ہے۔ اگر کسی وردی والے نے اس سے ماچس نہ چھینی تو یہ اپنی روایت، ثقافت اور مذہب کے ساری ردائیں جلا ڈالے گا۔
اقبال افغانی Aug 16, 2012 06:47am
سوال یہ ہے کہ جو آپ کی نظر میں برایی ہے کیا وہی دوسروں کی لےی بھی برایی ہے؟ حیا کے ضمن میں یہ اس پر اتفاق رایے کیسے ہو کہ مکمل برقعہ، یا حجاب یا چادر یا صرف آنکھ کا حجاب ہی کافی ہے اور کیا اس انتخاب میں اس عورت کی مرضی شامل ہوگی یا نہیں جسے اس پر عمل درآمد کرنا ہوگا؟ کچھ اس پر بھی روشنی ڈالیں.
نادیہ خان Aug 16, 2012 06:50am
لوگوں کی اکثریت سے ہی فیصلہ ہو تو وہ تا کام کیے بغیر اجرت بھی وصول کرنا چاہتی ہے؟ پھر آپ نے لوگوں کی اکثریت کا فیصلہ کیسے کیا؟ صرف اس لیے کہ آپ کو یہ ناپسند ہے؟
نادیہ خان Aug 16, 2012 06:53am
ان کا کیا کیجیے گا جو کہتے ہیں 'داغ‌ تو اچھے ہوتے ہیں'؟
اقبال Aug 16, 2012 07:19am
ہر ایک کو آزادی ہے، مگر آپ کی آزادی وہاں ختم ہوتی ہے جہاں میری ناک شروع ہوتی ہے۔ آزادی مانگنے والوں کو دوسروں کی آزادی کی عزت بھی کرنی ہوگی۔ ننگا معاشرہ کوئی معاشرہ نہیں ہوتا۔
ابدئللاھ Aug 16, 2012 08:16am
عریاں ہونا آزادی ہی ہے۔ ایسی آزادی آپ کو مبارک۔
بابرجمیل راجپوت Aug 16, 2012 08:54am
آزادی کے نام پر فحاشی و عریانی ہمارا نصب العین بنتا جا رہا ہے جس کی کسی بھی صورت میں حمایت ہمیں پستی کی طرف لے جائے گی۔
فرحا ن Aug 16, 2012 12:25pm
بے حیائی اور فحاشی سے جس طرح معاشرے کو میڈیا آلودہ کر رہا ہے اس کی روک تھام ضروری ہے۔ اس کے ثمرات بد کا اندازہ ہمارے سماج میں تیزی سے بڑھتے ہوئے جنسی درندگی کے واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔ اور اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ نہ بھی کریں تو بحیثیت مسلمان خدا اور اس کے رسول کی قائم کردہ حدود کو قائم کرنا ضروری ہے۔
اقبال افغانی Aug 16, 2012 02:37pm
لیکن اگر آپ کا اصرار ہو کہ آپ کی ناک میری ناک سے ذرا پہلے ہی شروع ہو جاتی ہے تو کیا کیا جائے۔ مسئلے کا حل بتائیے۔ یہ بیان کیجیے کہ جب شیخ رشید تمام پاکستانی چینلوں پر یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ: ‘کل دی ۔ ۔ ۔ ۔’ ۔یہ فحاشی ہے یا وینا ملک کی فوٹو شوٹ؟ ایمان سے یہ بھی فرمائیے کہ کیا آپ کی قوتِ ایمانی نے آپ کو اتنا ہی مضبوط رکھا کہ آپ نے ان تصاویر پر نظر نہ ڈالی ہو؟
فوزیہ شاہ Aug 16, 2012 02:47pm
ہم سب ‘عریانی’ کو بہانہ بنا کر دوہری زندگی گزارنے کے حق میں ہیں، یعنی بظاہر پارسائی اور معاشرے میں اسلامی اقدار کے دعوے دار لیکن چھپ چھپ کر سب کرنے والے۔تبھی تو دنیا میں گھٹیا ویب سائیٹس وزٹ کرنے والوں میں بھی ہم ہی سر فہرست ہیں۔ تبھی عمران خان ہمارے ہیرو ہیں جن کی جوانی بھی ہمارے سامنے ہے اور اب ان کا اسلامی فلاحی مملکت کا خواب بھی۔ یا شاید آپ سب کے خیال میں مسلمان مردوں کی لیے سب جائز ہے۔
علی Aug 16, 2012 06:15pm
بہت اچھا.... :)
فھاد Aug 16, 2012 07:21pm
مسلما ن اگر برائ کو صرف دل میں برا سمجھے اور اس کو روکنے کی کوشش نا کرے تو یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ھےاور میڈیا جو فحاشی پھیلا راھا ھے اس برائ کو لوگوں کی اکثریت کم از کم دل میں تو برا سمجھتی ھو گی۔
masoom Aug 16, 2012 10:19pm
azadi main itna agy na nikl jao