۔ — تصویر بشکریہ مصنف

پنجابی زبان میں بولیاں مشکل سے مشکل بات کو بہت ہلکے پھلکے انداز میں کہنے کا ایک موثرذریعہ ہیں۔ اس بولی میں بہو کیکر کو مخاطب کرکے جو خودآپ ہی بہت تیزی سے بڑھنے کے لئے مشہور ہے، کہہ رہی ہے، جلدی جلدی بڑا ہو کہ وہ اس کی مضبوط لکڑی سے اپنی ساس کے سفرِآخرت کا تابوت بنا سکے۔

ہماری لوک شاعری میں مٹی کی خوشبو ہے، اس کا رشتہ اپنے لوگوں اورماحول سے بہت مضبوط اور گہرا ہے۔

اسکے استعارے اور تشبہات بھی وہیں سے آتے ہیں ۔ ان سب کے بارے میں ان کی دلچسپی کے ساتھ ساتھ ان کے گہرے علم کا اظہار بھی ہے۔

کیکر تیزی سے بڑھتا ہے اور اس کی لکڑی بہت مضبوط ہوتی ہے ،لہذا ساس کے تابوت کے لیے سب سے مناسب سمجھی گئی ۔

کیکرکے تنے کا رنگ سیاہی مائل گہرا بھورا ہوتا ہے اور اس بات کو شاعر نے کہاں جا کے جوڑا:

منڈا روہی دے ککر توں کالا تے باپو نوں پسند آ گیا

مضبوط اور اٹوٹ رشتے اور روزمرہ زندگی میں ان اشجار کی شمولیت نے ہمارے مقامی درختوں اور پودوں کو ہمارے دیہاتی منظرنامے سے غائب ہونے بچائے رکھا ہے ، جب کہ شہروں کی بات اس کے برعکس ہے۔

ایک دیہات میں مویشی، چارہ کاٹنے کی مشین اور لکڑیاں کیکر کے درخت تلے موجود ہیں۔ تصویر بشکریہ مصنف

 شہروں میں درخت لوگ خود نہیں لگاتے بلکہ ادارے لگواتے ہیں اور لگانے والوں کے معاشی مفادات کے زیر اثر ہی درختوں اور پودوں کا انتخاب ہوتا ہے۔

اگر آپ غور سے دیکھیں تو وہ ایک کیکر ہی تو ہے جس  کے زیر سایہ کاشت کارکی جملہ ضروریات اور مشکلات کا حل سمایا ہے۔

اس کے گھر کے باہر لگے ایک کیکر تلے اس کی گائے بھینس، بکری اور باربرداری کے جانور یعنی بیل اور گدھا بھی مقیم ہیں اور ان کا چارا کاٹنے کی مشین،ایندھن کے لیے جمع کی گئی لکڑیاں اور جانوروں کا گوبر۔۔۔ سب کچھ تو کیکر کی گھنی چھائوں تلے ہے۔

درخت کی بڑھوتری کے لیے کی گئی تراش خراش سے حاصل شاخیں کاشت کار کا چولہا روشن رکھتی کاشت کار کے لیے یہ صرف ایک درخت نہیں اس کا بازو ہے اور بازو بھلا کون کاٹتا ہے۔

کیکر اورہمارے کاشت کار کا صدیوں پرانا ساتھ ہےجسے اگر کوئی نام دیا جاسکتا ہے تو وہ سوائے بقائے باہمی کے اور کچھ نہیں۔

گاوں کے بے فکر بچے کیکر کے درخت تلے کھیل رہے ہیں۔ تصویر بشکریہ مصنف

اردو اور پنجابی میں اسے کیکر کہتے ہیں۔ سنسکرت میں ببول کا نام دیا جاتا ہے انگلش میں اسے عریبک تھرون کہتے ہیں۔

اس کا نباتاتی نان آکیسیا نائی لوٹیکا ہے جو یونانی سے لیا گیا۔ آکیسیا کانٹا اور اور نائی لوٹیکا سے مراد وادیِ نیل ہے جہاں یہ بڑے پیمانے پر کاشت ہوتا تھا۔

کیکر کی آماجگاہ بہت وسیع ہے۔ یہ افریقہ سے ایشیا اور آسٹریلیا تک پایا جاتا ہے۔ جنوبی فرانس میں بھی قدرتی طور پر موجود ہے۔

کیکر ان اشجار میں شامل ہے جن کا ہر حصہ معاشی اہمیت کا حامل ہے۔ خواہ وہ اس کی لکڑی ہو یا پتے، چھال ہو یا پھلیاں سب ہی کسی نہ کسی کام آتے ہیں۔

دور کیوں جائیے خود اس کا اپناوجود جس زمین پر ہوتا ہے اس کی قسمت بدل جاتی ہے۔ کیکر کو بنجر زمینیں قابلِ کاشت بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

اس کی جڑوں کا ایک خاص حصہ جنہیں روٹ نوڈلز کہتے ہیں، ہوا میں موجود نائٹروجن کو پودوں کے استعمال کے قابل نائٹروجن یعنی کھاد میں تبدیل کرنےکی حیرت انگیز صلاحیت رکھتی ہیں۔

اس کی جڑوں کا دُہرا نظام جہاں زمین میں نامیاتی مادے کی مقدار میں بے پناہ اضافے کا باعث ہوتا ہے وہیں اس کی مرکزی جڑ یا ٹیپ روٹ بہت گہرائی میں جا کر نہ صرف اپنے لیے پانی کا بندوبست کرتی ہے بلکہ اپنے اطراف زیرزمین پانی کی سطح بھی بلند کرتی ہے بلکہ کیکر کو زرعی شجرکاری کے لیے ایک پسندیدہ درخت بناتی ہے۔

یہ تیس پینتیس  فٹ اونچا اور تقریباً اتنی ہی لمبی چوڑی چھتری والا درخت ہے۔ بسا اوقات اس کی اونچائی بیس میٹر یعنی ساٹھ فٹ تک ہوجاتی ہے۔ کیکر کا تنا بہت موٹا نہیں ہوتا اور چھال کا رنگ سیاہی مائل بھورا ہوتا ہے جو کافی کٹی پھٹی ہوتی ہے۔

کیکر کے سیدھے تنے والے درخت شازوناظر ہی دیکھنے کو ملتےہیں۔ اس کا بل کھاتا ٹیڑھا میڑا، جھکتا اٹھتا سراپا اور اس پر کانٹوں کی بہتات ازلی دکھی ہونے کا تاثر ابھارتی ہیں۔

 اس کے پتے جب شاخوں سے پھوٹتے ہیں تو ہلکے اور بہت کھلتے سبز رنگ کے ہوتے ہیں لیکن وقت کے  ساتھ ساتھ ان کا رنگ گہرا سلیٹی مائل ہوجاتا ہے۔

شاخوں سے پھوٹتی ذیلی شاخیں تین ۔ چھ جوڑوں کی صورت ایک دوسری کے مقابل نمودار ہوتی ہیں جن پردس سے تیس یضوی پتے نکلتے ہیں۔

دراصل اس کی ذیلی شاخوں کو ہی اس کے پتے سمجھا جاتا ہے۔ بڑی شاخوں سے جہاں پتوں والی ذیلی شاخیں پھوٹتی ہیں وہیں سے پہلے سلیٹی رنگ کے کانٹے جو جوڑوں کی شکل میں نکلتے ہیں جو دو تین انچ لمبے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد باری آتی ہے پھولوں کی۔

 کانٹوں اور پتّے والی ذیلی شاخوں کے پھوٹنے کےمقام سے ہی وہ ننھی ڈنڈیاں نکلتی ہیں جن کے سرے پر گول گول سی ننھی کلیوں کا گچھا ہوتا ہے جو کھلنے پر باریک باریک بالوں والی گیند کی شل اختیار کرلیتاہے۔ یہ پھول گچھوں کی صورت ہوتے ہیں۔

دھوپ اوڑھے ہوئے کیکر کے خوشنما پھول۔ تصویر بشکریہ مصنف

کیکرکی کاشت کے تمام آبائی علاقوں میں سورج بہت سویرے بیدار ہوتا ہے اور شام کو دیر تک جانے کا نام نہیں لیتا یہ بات کیکر کے لئے باعث فکر نہیں بلکہ اس کے پھولوں نے تو رنگ ہی دھوپ سے چرایا ہے۔

دھوپ رنگ کے ان نازک پھولوں کی خوشبو نہایت مسحور کن ہوتی ہے۔ کیکر کے پھول ساخت میں ہی نازک نہیں ان کا رنگ بھی جلد پھیکا پڑجاتا ہے۔

چھوٹے اور کم عمر درخت پر کانٹے لمبے اور تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں جبکہ مکمل درخت پر ان کی تعداد بھی کم ہوتی ہے ۔

یہ اس کا قدرتی حفاظتی نظام ہے جو اسے چرنے والے جانوروں سے بچاتا ہے۔ اس کے پتے اونٹ، بکری اور گائے بھینس وغیرہ کا پسندیدہ چارا ہے اور انتہائی صحت بخش بھی ہے۔

اس کی چھال میں کیمیائی مادہ ٹیننز کی بھاری مقدار پائی جاتی ہے جو ادویہ سازی کے علاوہ جانور کی کھال کو چمڑا بنانے اور پھر اُسے رنگنے کے کام آتی ہے۔ دراصل چمڑے کازرد رنگ کیکر کا دیا ہوا ہی ہے ورنہ جانور کی کھال تو ہلکی نیلی یا سلیٹی ہوتی ہے۔

کیکر کی پھلیاں بھی دیدہ زیب ہوتی ہیں۔ یہ بیجوں کے گرد مضبوطی سے اس طرح منڈھی ہوئی ہوتی ہیں کہ بالکل موتیوں کی لڑیاں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ اپنے ہلکے سلیٹی رنگ کی وجہ سے سبز پتوں اور گہری بھوری شاخوں میں بہت ہی نمایاں ہوتی ہیں۔

غذائیت سے بھرپور کیکر کی پھلیاں۔ تصویر بشکریہ مصنف

کیکر کی پھلیاں اپنی غذائی افادیت میں کسی سے پیچھے نہیں۔ خشک چارے کے طور پر تو صدیوں سے استعمال کی جاتی ہیں۔

اب انہیں مرغیوں کی خوراک میں بھی بطور 'پروٹین میل' شامل کیا جارہا ہے۔

ماہی پروری کرنے والے کاشتکار پھلیوں کو مچھلیوں کے تلاب میں ڈال دیتے ہیں جس سے گھونگے اور بہت سے کیڑے تلاب سے دور رہتے ہیں اور مچھلیاں بھی بہت سی بیماریوں سے دور رہتی ہیں۔

کیکر کی لکڑی صدیوں سے ہمارے رہن سہن کا لازمی جزو رہی ہے۔ گھروں کی تعمیر میں اس سے بنے کھڑکی دروازے، شہتیر اور بالے اولین انتخاب رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کا بنا ہوا فرنیچر بھی بہت مضبوط ہوتا ہے اور سالہا سال کام آتا ہے۔

مضبوطی میں اس کا مقابلہ شیشم سے کم کسی اور لکڑی سے نہیں کیا جاسکتا۔

 اس کی  حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت بھی بہت بلند ہے اس سے کوئلہ بھی بہت عمدہ بنتا ہے اور یہ جلتی بھی خوب ہے۔

شہروں میں اب کیکر نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس صورت حال کے تبدیل ہونے کا بھی کوئی امکان دور نزدیک نظر نہیں آ رہا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔

کیکر کو دیس نکالا کیوں دیا جارہا ہے؟  کیکر سے روایتی طور پر لئے جانے والے کاموں کو جدید سائنسی خطوط پر تحقیق کرکے مزید بہتر کیوں نہیں کیا جاسکتا؟جیسے کہ چمڑا سازی، پولٹری اور فش فارمنگ کی صنعت وغیرہ۔


سید قمر مہدی لاہور میں مقیم ماہرِ اشجار ہیں وہ پنجاب لوک سجاگ میں خدمات سرانجام دیتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (16) بند ہیں

قمر مہدی Aug 19, 2012 07:04pm
چھیتی چھیتی ودھ وے ککرا اساں سس دا صندوق بنانا ایک پنجابی بولی ہے
عاصم ڈوگر Aug 21, 2012 11:10am
قمر صاحب نہایت عمدہ آرٹیکل، جو کہ آپ کی درختوں، پھولوں اور اپنی مٹی سے محبت کا عکاس ہے۔ دلچسپ پیرائے میں تحریر کردہ مضمون میں موجود بیش بہا معلومات قارئین کیلئے نہایت مفید ہیں۔
ناصرہ حبیب Aug 21, 2012 01:45pm
کہانی کا انداز لیے ہوئے نہایت عمدہ تحریر ہے۔ اُمید کرتی ہوں کہ شہروں کے لوگ بھی دھرتی سے پھوٹنے والے اس درخت میں دلچسپی لینے لگیں گے۔ آگہی میں اضافہ کرنا نہایت ضروری ہے لیکن یہاں رکنا ٹھیک نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ایک ساتھ آواز بھی اُٹھائیں اور شجرکاری کی مہمات بھی چلایں۔ مشکل کام ہے مگر کرنا تو ہے۔ قمر صاحب، آپ کے ان مضامین کو بلاگ کی حد تک نہیں رہنا چاہیے بلکہ دوسرے ذرائع سے بھی اس کی اشاعت و ابلاغ ہونا چاہیے۔
محمد پرویز Aug 21, 2012 03:34pm
قمر مھدی: آپ کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے. کیا ہی اچھا ہو کہ آپ پاکستان کے بہت سے دوسرے درختوں کے بارے میں بھی اسی طرح کے خوبصورت مضمون لکھتے رہیں. مزید یہ کہ آپ نے کتنی خوبصورت تصویروں سے کیکر کو اور ہماری سرزمین کو آراستہ کیا. ہمیں آپ جیسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ہر وقت کی سیاسی بک بک کو چھوڑ کر کچھ باتیں پاکستان کے حسن کی بھی کر سکیں. میری پر خلوص دعائیں آپ کے ساتھ ہیں.
عاصم نسیم بٹ Aug 21, 2012 09:03pm
عزت مآب جناب مہدی صاحب ! آپ کی تخقیق اور تحریر، دونوں کمال کی ہیں۔ خُدا آپ کے علم میں اضافہ فرمائے اور آپ اسی طرح ہم سب کو بھی اپنی معلومات سے مستفید فرماتے رہیں۔
یمین الاسلام زبیری Aug 22, 2012 12:51am
اللہ کا شکر ہے کہ قمر صاحب عید کا چاند نہیں ہو گئے، ورنہ ایسے موضوعات پر لکھنے والے ایک آدھ مضمون کے بعد گول ہو جاتے ہیں. صاحب، کیا خوبصورت مضمون ہے؛ اس میں کتنی تفصیل ہے. ویسے تو ہر ہر تفصیل کی الگ الگ تعریف ہونی چاھئے لیکن ایسا ممکن نہیں. البتہ قمر صاحب کا حرف آخر خاص توجہ کا مستحق ہے. آپ نے غالباََ لاہور کی بات کی ہے، میں نے کراچی میں دیکھا ہے کے اس درخت کی بیخ کنی کی باقاعدہ مہم جاری رہتی ہے. بہت سی جگہوں پر یوکلپٹس لگایا گیا ہے، کیا ا
یمین الاسلام زبیری Aug 22, 2012 12:56am
(آدھا خط یہاں پڑھئے) کیا اچھا ہو کہ اس کی بجائے کیکر کو اگنے کا موقعہ دیا جائے. سایہ بھی ہو گا اور دیکھ بھال پر لاگت بھی نہیں آئے گی. میں نے اکثر فوجی جوانوں کو زمین سے کیکر کی جڑیں نکالتے دیکھا ہے، غالباًً ایندھن کے لئے، قمر صاحب سے درخواست لے کہ ان کے علم میں یہ بات ہو تو اس پر روشنی ضرور ڈالیں. شکریہ.
قمر مہدی Aug 22, 2012 11:25am
ہم صرف اقتدار کی سیاست کو ہی سیاست سمجھتے ہیں یہ بلاگ اور بھی سیاسی عمل ہی ہیں. ہم جب کیکر یا ایسے ہی کسی اور درخت کی جڑیں کھود کر نکالتے ہیں تو دراصل ہم اپنی جڑیں کھود رہے ہوتے ہیں اور اس کام میں ہم بہت ماہر ہیں. کراچی کا تو مت پوچھیں سفیدہ تو پھر بہت بہتر درخت ہے اصل خطرناک پودا تو کونوکارپس ہے جو کراچی اور سندھ کے سب شہروں پر مسلط کر دیا گیا ہے. وہ ایک مینگرو ہے جو ڈیلٹا کا پودا ہے. کچھ عرصے بعد یہ بھی اسلام آباد کے کاغذی شہتوت کی طرح ایک بھیانک خواب ہوگا.
قیصر نذیر خاور Aug 22, 2012 12:49pm
'' شہروں میں درخت لوگ خود نہیں لگاتے بلکہ ادارے لگواتے ہیں اور لگانے والوں کے معاشی مفادات کے زیر اثر ہی درختوں اور پودوں کا انتخاب ہوتا ہے۔''
حماد Aug 22, 2012 06:52pm
کمال انفارمیشن قمر جی...بہت ودھیا
یمین الاسلام زبیری Aug 22, 2012 11:01pm
اچھ
یمین الاسلام زبیری Aug 22, 2012 11:06pm
اچھا جواب ہے، میں نابلد تھا کہ یوکلپٹس کو سفیدہ کہتے ہیں. شکریہ. آپ کے جواب پہ یاد آیا کہ جناب جسٹس کیانی نے محکمہ جنگلات پر ایک طنزیہ مضمون لکھا تھا، اچھا تھا.
اارشد رضوی Aug 23, 2012 07:58am
مہدی بھائی! السلام علیکم۔ اللہ کرئے زور بیان اور زیادہ۔ لفظ ہیں کہ موتی پرو دیئے۔ رہا معاملہ درختوں بارے علم کا۔۔۔۔تو صاحب کیا کہنا۔۔۔۔کسی دوست نے درست کہا کہ علم و معلومات کا یہ خزانہ بلاگ تک کافی نہیں‌۔۔۔۔کتاب درکار ہے۔
تبدیلی Aug 24, 2012 12:01pm
بہت عمدہ آرٹیکل. قمر مہدی صاحب کیا موسم برسات میں کیکر کے بیجوں کو زمین پر بکھیرنے سے بھی کیکر کی شجر کاری ممکن ہو سکتی ہے؟
امتیاز رشید لاہور Aug 27, 2012 01:53pm
قمر صاحب بہت ہی چنگابلاگ لکھیا اے تساں… ایس دھرتی دے دوجے رکھاں بارے وی ضرور لکھو
زاہد جعفری Aug 31, 2012 09:28am
قمر مہدی صاحب اتفاقاَ آپ کا مضمون سامنے آیا اور میں اس میں بہتا چلا گیا.نہایت عمدہ — معذرت اردو ٹائپنگ پر زیاہ عبور نہی ہے۔