۔ تصویر بشکریہ مصنف

پندرھویں صدی کا قصہ ہے جب بلوچستان کا علاقہ کوہلو بہت بڑے سیلاب کی زد میں آیا تھا۔ روایت ہے کہ سیلاب میں ایک بچہ اپنے ماں باپ سے بچھڑ گیا اور بہتا ہوا ایک درخت میں جا اٹکا اور پھر پانی اترنے تک اسی درخت میں اٹکا رہا۔

اس دوران درخت سے نکلنے والے میٹھے ، خوش ذائقہ رس نے بچے کو اس آفت سے نمٹنے اور زندہ رہنے میں مدد کی۔ سیلاب کے بعداسے پانے اور پالنے والے ماں باپ نے درخت کی نسبت سے اس کا نام 'گزن'رکھ دیا ۔

یہ وہی گزن تھا جس کی اولاد گزینی کہلاتی ہے اور مری قبیلے کی سب سے بڑی شاخ تصور کی جاتی ہے ۔ مری قبائل کے موجودہ سردار بھی گزینی مری ہیں ۔

بلوچستان میں'گز' کے نام سے شناخت پانے والے اس درخت کو وسطی پنجاب میں 'اوکاں' اور جنوبی پنجاب یا سرائیکی علاقے میں 'کھگ گل' ہندی اور اردو میں‘ فراش ’کہتے ہیں۔

سندھ میں اوکاں کی تمام اقسام —جھاڑی نما چھوٹے پودوں سے لے کر قدآور درخت تک —قدرتی طور پر پائی جاتی ہیں۔ یہ لائی اور لاوَ کے ناموں سے بھی شناخت کی جاتی ہیں۔

بلوچستان کی طرح اوکاں کو ایران میں بھی 'گز' یا 'گزانجابین' کہا جاتا ہے۔ وہاں اس کے میٹھے رس سے ایک خاص قسم کی مٹھائی تیار ہوتی ہے جسے 'گزانجابین' کہتے ہیں۔ یہ مٹھائی ایران اور افغانستان میں یکساں مقبول ہے۔

عرب اسے ایتھل یا طرفہ کہتے ہیں تو یورپ والے اسے سالٹ سیڈار کے نام سے پکارتے ہیں۔

غرضیکہ اوکاں یا فراش کو کوئی بھی نام دے لیں، یہ ان تمام مقامات پر زندگی کی علامت ہے جہاں اور کچھ نہیں پنپ سکتا۔

اس درخت کا نباتاتی نام ٹامارکس اے فائلہ ہے جس کا پہلا حصہ اس کی وسیع و عریض سلطنت میں شامل اسپین کے دریا 'ٹاماریس' سے لیا گیا ہے، جب کہ دوسرا حصہ اس کے پتوں کی ساخت کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ متعدد برِ اعظموں میں پایا جاتا ہے۔ ایشیا ، افریقہ اور یورپ کے گرم خشک اور بے آب و گیاہ علاقے اس کا مسکن ہیں ۔

اوکاں اونچے قد کاٹھ کا شجر ہے۔ جڑوں کے گہرے اور مربوط نظام کی بدولت بہت جلد خود کفالت حاصل کر لیتا ہے اور نرم ریت میں بھی انتہائی مضبوطی سے قدم جمائے رکھتا ہے۔

ساٹھ فٹ تک اونچا قد صحرا کی تیز و تند ہواؤں کا غرور توڑنے اور باغات کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتا ہے۔

اسے ہر طرح کی زمین میں کاشت کیا جاسکتا ہے۔ خشک سالی برداشت کرنے کی اس کی صلاحیت بھی منفرد ہے۔ زیادہ نمک والی بنجر زمینوں اور کھارے پانی پر یہ اُگ جاتا ہے۔

یہ قدرتی طور پر ایسی زمینوں پر پایا جاتا ہے جہاں حل شدہ نمک کی مقدار چھ ہزار پی پی ایم تک ہو مگرپندرہ ہزار پی پی ایم والی زمینوں پر بھی کامیابی سے کاشت کیا گیا ہے۔

اپنی حیران کن رفتار کی بنا پر جنگلات کا رقبہ بڑھانے اور صحرا ئی ریت کی گردش کو روکنے میں بھی مدد گار پایا گیا ہے۔ اوکاں ایک سال میں( موافق حالات میں) دس سے بارہ فٹ تک بلند ہو جاتا ہے۔

امریکا، آسٹریلیا، لیبیااور متحدہ عرب امارات نے اسے بخوبی استعمال کیا ہے۔ اوکاں کی ایک لاجواب خوبی اس کا نباتاتی فلٹر ہونا ہے یعنی زمین سے نمکیات کی زائد مقدار یا پھر ایسے فاسد مواد ( صنعتی فضلہ) جو بھاری دھاتوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور زمین اور زیر زمین پانی دونوں کو ناقابل استعمال بنا دیتے ہیں، کو اپنی گہری اور پھیلی ہوئی جڑوں کی بدولت انتہائی گہرائی سے کھینچ نکالتا ہےاور اپنے پتوں اور شاخوں کے ذریعے خارج کرتا ہے۔

یوں زیر زمین پانی اور خود مٹی کو ان سے پاک کر کے قابل استعمال بناتا ہے۔

اوکاں کے نباتاتی نام کا دوسرا حصہ 'اے فائلہ' لاطینی سے ہے۔ جس کے معنی ہیں پتوں کی بغیر۔ اس کے پتے انتہائی چھوٹے، ایک سے دو سینٹی میٹر لمبے اور عموداً ایک دوسرے سے اس طرح پیوست ہوتے ہیں کہ ایک باریک سی سوئی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

بعض اوقات انہیں سرد علاقوں میں پائے جانے والے اشجار(پائین وغیرہ) کےپتوں کے مماثل سمجھا جاتا ہے جو درست نہیں ۔

۔ تصویر بشکریہ مصنف

اس کا تنا سیدھا اور لمبا ہوتا ہے۔ چاروں جانب پھیلی موٹی شاخیں اس کی چھتری کے خدوخال وضع کرتی ہیں۔

گہرے سبز رنگ کے پتوں سے بھری، اوپر سے نیچے کی جانب جھولتی ہوئی ذیلی شاخیں ایک مہربان دوست کی شبیہ بناتی ہیں جس کا ثبوت اوکاں پوری عمر اپنے ہر ہر حصے اور ہرہر خوبی سے دیتا رہتا ہے۔

نئی شاخیں سرخی مائل بھوری اور ہموار ہوتی ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ کھردری اور رنگت میں کچھ جامنی جھلک کے ساتھ گہری بھوری ہوجاتی ہیں۔

زیر زمین نمکیات کا اخراج ان پر ہلکی سی سفید پرت بھی چھوڑ جاتا ہے۔ علی الصبح اوکاں کے پتوں کے سروں پر پانی کے چھوٹے چھوٹے قطرے بھی اسی نظام کی بدولت ہوتے ہیں۔

اوکاں پر جب پھول آتے ہیں تو یہ پہچان میں ہی نہیں آتا۔ پتوں والی شاخوں کے سرے پر دو سے چارانچ لمبی ڈالیاں نمودار ہوتی ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ایسا ہوتا ہے کہ سارا منظر ہی بدل جاتا ہے، گچھوں کی صورت ظاہر ہونے والے یہ پھول بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں اور ان کا رنگ سفید یا بہت ہلکا گلابی ہوتا ہے۔

ان کے نباتاتی عضو اور زردانے گہرے اور شوخ گلابی ہوتے ہیں۔

اوکاں کے پھول گرمیوں کے آغاز میں کھِلتے ہیں اور دیر تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ عموماً ماہ مئی اور جون اس کے جوبن کا وقت ہوتا ہے۔

اوکاں کی کاشت آسان ہے۔ اسے بیجوں کے ذریعے یا پھر قلم لگا کر یا پھر جڑوں سے پھوٹنے والے ذیلی پودوں کو علیحدہ کر کےبھی لگا یا جاسکتا ہے۔ ایک درخت ایک سال میں کوئی پانچ لاکھ تک بیج پیدا کرتا ہے مگر سب قابل نمو نہیں ہوتے۔

اس کی لکڑی ہلکے رنگ کی مگر مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے۔ ریشے ہموار اور بہت قریب قریب ہوتے ہیں۔ اس کی سطح کو ہمواراور ملائم کیا جاسکتا ہے۔

اس پر پالش بھی بہت عمدہ ہوتی ہے جو اسے گھریلو فرنیچر بنانے، عمارتی استعمال اور آرائشی اشیا کے لیے بہتر انتخاب بناتی ہے۔

بطور ایندھن اس کا استعمال صدیوں کی روایت ہے، یہ آہستہ آہستہ جلتی ہے اورجلتے ہوئے ایک دھیمی سی خوشگوار مہک دیتی ہے۔

اس کی حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت بھی بہت زیادہ ہے اور اس سے بہت عمدہ کوئلہ بنایا جاتا ہے۔

اس کی ادویاتی اہمیت مسلمہ ہے اورجن امراض کے علاج میں اس کے اجزا تجویز کیے جاتے رہے ہیں ان کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔اوکاں اور اس کے ادویاتی اجزا کا ذکر ادویات کی تمام کتب میں موجود ہے۔

حکیم ابن سینا، حکیم ابن بیطار اور خود خزینہ ادویہ جیسی نادر تصانیف میں اس کے خواص کا تذکرہ موجود ہے۔

عصر حاضر کے عظیم حکیم جناب محمد سعید صاحب نے بھی اس پر ایک طویل مضمون تحریر کیا اور اس کی خوبیوں پر سیر حاصل بحث کی لیکن پھر بھی ان تمام خوبیوں کی جدید علوم کی روشنی میں اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تصدیق بذریعہ تحقیق نہیں کی گئی۔ یوں ہم اس کے ثمرات سے اب تک محروم ہیں۔

اوکاں کا ایک اور دلچسپ تاریخی حوالہ اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی اور اس کے بعد کی نئی سیاسی اور معاشی حد بندیوں سے متعلق بھی ہے۔

پنجاب کے عظیم سپوت رائے احمد خان کھرل کی کامیاب مسلح جدوجہد خود ان کی شہادت اور انگریز اسسٹنٹ کمشنر لارڈ برکلے کی موت پر ختم ہوئی۔

انگریز نے علاقے میں مقامی قوتوں کو توڑنے اور اپنا اثر رسوخ بڑھانے کے لیے نئی حد بندیاں کیں اور نئے تجارتی راستے اور شہر تعمیر کیے جن میں لائل پورموجودہ فیصل آباد، منٹگمری موجودہ ساہیوال اور اوکاڑہ شامل ہیں۔

گوگیرہ راوی کے جاٹوں کا مرکز اور لارڈ برکلے کی تحصیل کا صدر مقام تھا۔ اس کی مرکزی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے وہاں سے اٹھارہ کلو میٹر دور ایک وسیع جنگل کو کاٹ کر ایک نیا شہر بسایا گیا جو اپنے اکثریتی درخت کی وجہ سے اوکاں واڑہ کہلاتا تھا۔

انگریز نے اس نئے شہر کا نام جنگل کے پرانے نام سے ہی لیا تھا، جسے اب ہم اوکاڑہ کے نام سے جانتے ہیں۔ مقامِ افسوس یہ ہے کہ آج اس اوکاں واڑے یا اوکاڑہ میں تلاش کے باوجود آپ کو اوکاں کا ایک بھی درخت نہیں ملے گا۔ اسے ہم کیا کہیں گے؟ آپ ہی کچھ بتائیں۔

اوکاں قدرت کے عطا کردہ دیگر وسائل کی طرح بیش بہا وسیلہ ہے۔ یہ درخت سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے دیہی منظر نامہ کا لازمی جزو ہے مگر اس کے باوجود اس پرکسی ادارے کی طرف سے سائنسی بنیادوں پر تحقیق یا باقاعدہ کاشت کا سراغ نہیں ملتا۔

اوکاں کو باغات اور شاہرات کے اطراف نہیں لگایا جاتا۔ کیوں ہمیں اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے دور دراز دیہات کا سفر درپیش ہوتاہے؟

ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ کراچی کی سڑکوں کو سر سبز کرنے کے لیے کسی اجنبی اور ماحول دشمن پودے کی جگہ اس مہربان دوست کو آزمایا جائے؟

یہی وہ سوالات ہیں جن کے جوابات میں پاکستان کی ترقی کے راز پوشیدہ ہیں۔ سرائیکی زبان اور جنوبی پنجاب کی پہچان شاعر جناب اشو لال فقیر کی نظم کا ایک بند حسب حال ہے:

نچن، گاؤن، مینہ تے ساون ، چیت وساکھ أجایا منسب دار منادی کیتی ، حاکم حکم سنایا پھل درگاھوں چن سکدے او، ہار بنا نئی سکدے شاہ حسین کوں پڑھ سکدے او، میلے گا نئی سکدے


سید قمر مہدی لاہور میں مقیم ماہرِ اشجار ہیں وہ پنجاب لوک سجاگ میں خدمات سرانجام دیتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (6) بند ہیں

رینی ڈے Aug 28, 2012 12:40pm
بہت خوب !شکریہ....
یمین الاسلام زبیری Aug 29, 2012 12:58am
بہت خوب! اس تحقیق، اور اس جہد کا کہ یہ علم آپ ہی تک نہ محدود رہے، جناب قمر صاحب شکریہ. ایک سوال یہ ہے کہ کیا اوکاں کا رس میپل کے رس کی طرح جمع کیا جاسکتا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ اگر اوکاڑا کی بلدیہ یا شجرکاری والے، یا اور متعلقہ لوگ اس مضمون کو پڑھیں جو کہ سلیس اردو میں ہے، اور دلچسپ بھی ہے، تو کوئی کوشیش کریں کہ وہاں اوکاں کی کاشت کی جائے؛ اور اوکاڑا صرف نام کا اوکاڑا نہ رہ جائے. یا پھر اس کا نام اوکاڑا غیر رکھ دیں.
انور امجد Aug 29, 2012 05:02am
بہت خوبصورت اور معلوماتی مضمون ہے۔ پاکستانی درختوں کے بارے مین یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔اندازبیاں اتنا خوبصورت ہے کہ پاکستان سے ہزارون میل دور وطن کی خوشبو آ گئ۔
Qamar Mehdi Aug 29, 2012 09:53am
شکریہ زبیری صاحب!! اوکاڑہ کے تو نام کی بات ہے مگر اصل بات تو اپنے درختوں اور پودوں کی اہمیت سے باخبر اور حساس ہونے کی ہے. ہمارے درخت ہر لحاظ سے بہتر اور خوبصورت ہیں پھر بھی اگر انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے.
khawarking Aug 29, 2012 08:04pm
لو جی مجھے بلکل سمجھ نہیں لگی کہ کس درخت کی بات ہو رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے علاقے میں اس درخت کو کچھ اور کہتے ہوں۔ میں جو خود کو خاصا زیادہ پینڈو سمجھتا ہوں ، اس درخت کو پہچان نہ سکنے یا اس سے لاعلم ہونے سے خود کو اداس سا محسوس کر رہا ہوں۔
Qamar Mehdi Aug 31, 2012 06:54am
آپ کا علاقہ کون سا ہے، ہم نے کوشش تو کی ہے کہ ہر علاقے کا نام شامل کریں مگر پھر بھی سب تو نہیں ہوسکتے. ایک نام جو شامل ہونے سے رہ گیا تھا وہ پوٹھوہار کا ہے وہاں اوکاں کو "سرائیں" کہتے ہیں.