سر سنتے رکھ رہے تو بھی سستو جان' مطلب کہ اگر سر دے کر درخت کو بچایا جاسکے تو بھی یہ سودا سستا ہے۔

یہی وہ نعرہ مستانہ ہے جو امریتا دیوی نے لگایا اور اس درخت سے لپٹ گئیں جسے ان کے سمجھانے اور منع کرنے کے باوجود جودھپورکے راجا ابھئےسنگھ کے سپاہی کاٹنا چاہتے تھے۔

امریتا دیوی کے درخت کے ساتھ کٹنے کے بعد ان کی تینوں بیٹیوں آسو، رتنی اور بھاگو  بائی نے بھی ماں کی پیروی کی اور گاؤں کے درختوں کو کٹائی سے بچانے کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں۔

یہ سن سترہ سو تھہتّر کا واقعہ ہے جب راجا ابھئے سنگھ کو ایک نیا محل بنانے کا خیال آیا۔ اس کے لیے بڑی مقدار میں لکڑی کی ضرورت تھی۔

سپاہی لکڑی کی تلاش میں امریتا دیوی کے گاوں آدھمکے جو پورے علاقے میں سب سے زیادہ سرسبز تھا اور ہوتا بھی کیسے نہ، یہ گرو جم بھیشور جی کے پیروکاروں کا گاؤں تھا جو اپنے اُنتیس ماحول اور انسان دوست اصولوں کی وجہ سے بشنوئی کہلاتے ہیں۔

امریتا دیوی اور ان کی بیٹیوں کی شہادت  کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پورے علاقے میں پھیل گئی اور لوگوں نے اپنے گاؤں کے درختوں کو بچانے کے لیے ان سے لپٹ کر جانوں کا نذرانہ پیش کرنا شروع کردیا۔

جب تک راجا کو خبر ہوئی اور اس کی مداخلت سے یہ سلسلہ رکا، تب تک تین سو تریسٹھ لوگ اپنی جانیں قربان کر چکے تھے۔

جان لیں کہ بشنوئی عقیدے میں کسی بھی جانور کا شکار کرنا اور کوئی سر سبز درخت کاٹنا ممنوع ہے اور کسی بھی حالت میں اس کی کوئی اجازت نہیں ہے۔

امریتا دیوی کے گاؤں کا نام کھجرلی ہے۔ یہ صحرامیں اگنے والے ایک درخت کے نام پر رکھا گیا ہے۔ جی ہاں، اسی محبوب درخت کے نام  پر کہ جس پر جان بھی قربان کی جاسکتی ہے۔

یہ درخت راجستھان میں کھجری کہلاتا ہے۔ سندھ میں اسے کنڈی اور پنجاب میں جنڈ کہتے ہیں۔

جنڈ کی آماجگاہ بہت وسیع و عریض ہے۔  پورے برصغیر میں قدرتی طور پر پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے خشک اور صحرائی علاقے اس کا مسکن ہیں۔ اسی طرح ایران، سعودی عرب اور امارات کے بے آب و گیاہ تپتے میدان اس کا گھر ہیں۔

عرب اسے غاف کے نام سے پکارتے ہیں،سنسکرت اور گجراتی میں اسے سمی کہا جاتا ہے۔

قدیم عقائد میں جنڈ کی لکڑی کی آگ کو مقدس مانا جاتا تھا اور خوشی کے موقع پر اس کے گرد لڑکیاں ایک منفرد اور دلفریب رقص کرتی تھیں جسے سمی کہا جاتا تھا۔

پاکستان میں اب بھی پنجاب کے کچھ علاقوں میں یہ رقص باقی ہے۔ سمی دراصل عورتوں کے لیے مخصوص ہے اور مردوں کے رقص جھومر کا متبادل ہے۔

ہماری لوک داستانوں میں ایک قصہ ڈھول سمی کا بھی ہے۔  ہماری لوک داستانیں منظوم ہیں اور انہیں گانے کا بھی ایک مخصوص انداز ہے۔ ڈھول سمی عموماً شادی بیاہ کے مواقع پر ہی کیا جاتا ہے۔

ایک لڑکی درمیان میں کھڑے ہو کر گاتی ہے اور باقی دائرے میں اس کے گرد گھوم کر رقص کرتی ہیں اور تالی سے تال دے کر سماں باندھ دیتی ہیں۔

'سمی میری وار میں واری میں ورای آں  نی سمی اے' اس سے بھی ہمارے سماج میں جنڈ کی حیثیت اور اہمیت کا پتا چلتا ہے۔

صحرا کے اس باسی کا نام نباتات کی کتابوں میں 'پروسوپس سناراریا' درج ہے اور اس کا شمار نباتات کے عظیم خاندان 'فیب ایسی' میں کیا جاتا ہے۔ اس خاندان کے بہت سے پودے اور شجر ہماری روز مرہ زندگی میں شامل ہیں اورخوراک کا اہم حصہ ہیں۔

جنڈ درمیانےقد کاٹھ کا ایک سایہ دار درخت ہے۔  یہ کہنا تو بہت مشکل ہے کہ درختوں کی درجہ بندی میں اسے کیا کہا جائے، کیوں کہ یہ سایہ دار بھی ہے اور بہت کارآمد لکڑی والا بھی۔ اس کے پتے بہت عمدہ چارا ہیں اس کی چھال، پھلیاں اور گوند سب ہی بطور ادویات بھی استعمال ہوتی ہیں۔

جنڈ کی ہر شے کارآمد اور معاشی اہمیت رکھتی ہے۔ شاید اسی لیے صحرائے تھر کی ایک کہاوت ہے کہ اگر کسی کے پاس ایک بکری، ایک اونٹ اور ایک جنڈ کا درخت ہے تو سخت سے سخت حالات میں، یہاں تک کہ قحط  کے زمانے میں بھی موت اس تک نہیں پہنچ سکتی۔

اس کی لکڑی مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے اور گھروں کے شہتیر بالے اور دروازے کھڑکیاں بنانے کے کام آتی ہے۔ اس کی پتلی لمبی شاخیں گھروں کی چاردیواری اور بھیڑ بکریوں کے باڑے وغیرہ بنانے میں استعمال ہوتی ہیں۔

پینتیس چالیس  فٹ اونچا جنڈ تیزی سے بڑھتا ہے۔ یہ زمین کی سطح کی نسبت زیرِ زمین پھیلنے میں زیادہ تیزی دکھاتا ہے۔ مرکزی جڑ تو حیران کن حد تک  گہرائی میں جاتی ہے اور جلد ہی اپنے کاشتکار کو دیکھ بھال کے جھنجھٹ سے آزاد کر دیتی ہے۔

مرکزی جڑ کو پینتیس میٹر یعنی ایک سو بیس فٹ گہرائی تک بھی دیکھا گیا ہے۔ اس طرح یہ نہ صرف اپنی ضرورت کا پانی کھینچ لاتی ہے بلکہ آس پاس کی زمین کو بھی زرخیز کرتی ہے، اوپر سے اپنا خاندانی فریضہ یعنی نائٹروجن فکسنگ، جہاں لگے اس کے وارے نیارے۔

جنڈ  قد کاٹھ اور وضع قطع میں کیکر سے مشابہ ہوتا ہے لیکن پتوں کی ساخت اور پھولوں سے الگ پہچانا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑی پہچان تو اس کے کانٹوں سے ہوسکتی ہے۔

کیکر کے دو سے تین انچ لمبے نوکیلے کانٹوں کے بر عکس جنڈ کے کانٹے چھوٹے اور گلاب کے کانٹوں سے مشابہ ہوتے ہیں۔ اس کی پھلیاں کیکر کی پھلیوں کی نسبت زیادہ کمان دار ہونے کے باعث اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں۔

یہ پھلیاں جانوروں کا پسندیدہ چارہ تو ہوتی ہی ہیں انسانوں کو بھی ان کا ساگ ذائقہ  دیتا ہے۔ ان پھلیوں کا ساگ صحرائے تھر کا من پسند کھانا ہے۔ اپنے بھر پور ٹیننز کے باعث صحت بخش بھی ہے اور بہت سے امراض کا علاج بھی۔

جنڈ پاکستان اور بھارت میں پھیلے ہوئے صحرائے تھر کے نباتاتی سلسلہِ  حیات کا اہم رکن ہے۔

صحرا کے سخت ترین حالات، لمبی خشک سالی ، پانی کی کمیابی اور بلند ترین درجہ حرارت میں بھی سرسبز رہتا ہے۔ ایک سو ملی میٹر سے بھی کم سالانہ بارش اس کے لیے کافی سمجھی جاتی ہے۔

جنڈ کڑی دھوپ کو ٹھنڈی چھاؤں میں بدلنے کا فن بھی بخوبی جانتا ہے۔ یہ پیار کرنے والا درخت ہے اور اس کے تعلقات اپنے ہم وطنوں سے بہت ہی خوشگوار ہیں۔

صرف امریتا دیوی کے گاؤں کا نام ہی اس کے نام پرنہیں رکھا گیا بلکہ اپنی  کاشت کے تمام تر علاقوں میں یہ اسی التفات کا مستحق قرار پایا ہے۔  ہیرکے خالق وارث شاہ کا گاؤں جنڈوالا شیر خان  بھی اس کی ایک مثال ہے۔

یہ روایت صرف برصغیر تک ہی محدود نہیں، عرب امارات بھی اس میں شامل ہے جہاں اس کا نام غاف ہے۔ وہاں بہت سے شہر اور دیہات اس سے منسوب ہیں جیسے الغافیہ، غافت الکاتو،عود میتھا یا عود المیتہ وغیرہ (عود عربی میں جنڈ کے جھنڈ کو کہتے ہیں)۔

یہاں بات صرف شہروں تک محدود نہیں عرب اپنے بچوں کے نام بھی اس عجوبہ روزگار پر رکھتے ہیں، جیسے غافان، غافہ اور غااوفہ وغیرہ۔ امارات میں اسے قومی درخت کا درجہ دیاگیا ہے۔ اس کی بڑے پیمانے پر کاشت کی گئی ہے اور اس کا کاٹنا ممنوع قرار پایا ہے۔

پاکستان میں جنڈ کےحوالے سے بنیادی نوعیت کے کام کی ضرورت ہے۔ اس  کے آبائی علاقے کا بڑا حصہ پنجاب اور سندھ میں واقع ہےاور ہمارے پاس بنیادی معلومات ہی نہیں ہیں یعنی ہمارے ہاں کتنے جنڈ ہیں اور کہاں ہیں۔

اس مملکت خداداد میں مردم شماری ہوتی ہے ، خانہ شماری بھی کی جاتی ہے، بھیڑ، بکریاں اور گائے بھینس بھی گنی جاتی ہیں مگر کوئی ادارہ پودا شماری نہیں کرتا ۔ یہاں جیولوجیکل سروے ہے، ٹریفک سروے ہوتے ہیں مگر  کوئی نباتاتی سروے نہیں ہے۔

ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارے کون کون سے پودے معدوم  ہوچکے اور کتنے اس خطرے سے دوچار ہیں۔ اس  سےبھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ہم اس صورت حال پر کچھ زیادہ فکر مند بھی نہیں ہیں۔

لوگوں میں اس احساس کی اہمیت بیدار کر نے کے لیے کہ ہمیں اپنے ماحول کو اسی توازن سے قائم رکھنے کی ضرورت ہے جو قدرت نے ہمیں دیا ہے، مربوط مہم  کی ضرورت ہے جو اپنے مقامی پودوں اور درختوں کی اہمیت کو اجاگر کرے اور نئے پودوے لگانے کی طرف توجہ دلائے۔

ہمیں اپنے لوگوں خصوصا ًمنصوبہ سازوں اور ترقیاتی منصوبوں کے ذمہ داروں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ شاہراہوں پر ٹریفک کا بہاؤ سڑکوں کو چوڑا کیے بغیر بھی درست کیا جاسکتا ہے یا درختوں کو تباہ کیے بنا بھی سڑکوں کی ری ماڈلنگ کی جاسکتی ہے۔

ماحول دوستی اور ماحول کے تحفظ کا مطلب کسی طور بھی ترقی کی مخالفت یا اس کی راہ میں روڑا اٹکانا نہیں ہے۔

ایک درخت کو چند لمحوں میں کاٹ کر زمیں بوس کیا جاسکتا ہے اور اس کو چیر کر لکڑی کے لٹھوں یا ایندھن میں تبدیل کیا جاسکتا ہے جس کی قیمت چند سکے ہوگی پر ایک درخت کو بڑا ہونے کے لیے ایک عمر چاہیے اورکسی بھی ذی روح کی طرح اسے بھی محبت چاہیے اور اس پر جان بھی قربان کی جاسکتی ہے۔

تصاویر بشکریہ مصنف


سید قمر مہدی لاہور میں مقیم ماہرِ اشجار ہیں وہ پنجاب لوک سجاگ میں خدمات سرانجام دیتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (12) بند ہیں

TahirACreole Sep 04, 2012 10:26am
آپ کا ہر فقرہ معلومات اور ریسرچ سے بھرپور ہوتا ہے۔ میرا بس چلے آپ کو ڈان میں لکھے ہر مضمون پر پی ایچ ڈی کی ڈگری دوں
عاصم ڈوگر Sep 04, 2012 10:51am
جناب قمر صاحب ایک بار پھر نہایت معلومات افزا مضمون پڑھنے کو ملا ہے اور آپ نے بڑی اچھی بات کی کہ اس مملکت خداداد میں مردم شماری ہوتی ہے ، خانہ شماری بھی کی جاتی ہے، بھیڑ، بکریاں اور گائے بھینس بھی گنی جاتی ہیں مگر کوئی ادارہ پودا شماری نہیں کرتا .....
یمین الاسلام زبیری Sep 04, 2012 11:27pm
اس مضمون میں بہت سی خوبیاں ہیں. سب سےبڑی یہ کہ اتنے کم الفاظ مین جنڈ سے منصوب کہانیاں اور متعلقہ معلومات بہم لکھ دی گئی ہے. انارکلی کی طرح امریتا دیوی پر بھی فلم بننی چاہیے. امریتا تو کٹ گئی لیکن ہم نے کراچی میں سڑکیں صاف کرنے والوں کو دیکھا ہے کہ وہ کچرا درختوں کی جڑ کے پاس رکھ کر جلاتے ہیں. اسی طرح جھیل ہالیجی کے شوقین تنوں کے پاس کھانا پکاتے ہیں. بہت سے پیڑ اسی طرح ختم ہو گئے. اپنا سر نوچنے کو جی چاہتا ہے. یہ لوگ حساس لوگوں کا دل جلاتے ہیں.
عبدالعلیم چودھری Sep 05, 2012 07:50am
زبردست اور معلومات سے بھرپور......
رینی ڈے Sep 05, 2012 03:36pm
عمدہ،زبردست........مضمون.....
انور امجد Sep 06, 2012 02:00am
حسب معمول سید قمر مھدی صاحب کا درختون کے بارے میں ایک اور شاندار مضمون۔ ایک درخت کے بارے میں اتنی سماجی اور ثقافتی معلومات بھی شامل کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ماشا اللہ آپ کا مطا لعہ اور معلومات کتنی وسیع ہیں۔ پاکستان میں نباتات سے بے حسی کے تعلق میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں مغربی شہروں میں پارکوں کے ساتھ گرووز یعنی درختوں کے جھنڈ بھی ہوتے ہیں جو خوبصورتی کے علاوہ ماحول بھی صاف رکھتے ہیں۔ پارک کے لئے زیادہ زمین بھی چاہیے اور خرچ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ مگر درختوں کے جھنڈ چھوٹے رقبہ میں کم خرچ میں لگا ئے جا سکتے ہیں اور دیکھ بھال کی ضرورت بھی کم ہوتی ہے۔ پاکستان کے شہروں میں بھی دیسی درختوں کے گرووز لگانے چاہیں۔ اس طرح دیسی درخت بھی محفوظ رہیں گے اور ماحول بھی بہتر ہو گا۔
Qamar Mehdi Sep 06, 2012 06:52am
اتنے اچھے الفاظ کے لئے بہت بہت شکریہ! آپ کا تبصرا آپ کی خواہشات پر مبنی ہے. جائز خواہشات!! مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ گروو تو کیا دیسی درختوں جو ہم سے پچھلی نسلوں نے یا پھر حکومتی سطح پر انگریز نے لگائے تھے ان کو بچانا ہی نا ممکن ہوتا جارہا ہے. ہمارے اپنے رویئے بھی ہماری خواہشات کا ساتھ دیتے نظر نہیں آتے.........مثلآ ہم اپنی کار پارک کرتے وقت سایہ ڈھونڈتے ہیں لیکن نہ تو درخت کاٹنے والے کا ہاتھ روکتے ہیں اور نہ ہی نیا درخت لگاتے ہیں......عدالتیں بات تو کرتی ہیں لیکن ان کے فیصلے ان کے اپنی عدالت میں کہی گئی باتوں سے یکسر مختلف ہوتے ہیں اور ہمیشہ ماحول دشمنوں کے ہی مفاد میں ہوتے ہیں....اس سلسلے میں بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے....اس پر بھی کبھی تفصیل سے بات کروں گا!!!!
ثمرین Sep 06, 2012 10:54am
بہت اچھا مضمون ہے ، انتہائی معلومات افزا . بہت دنوں‌کے بعد کچھ اچھا پڑھنے کو ملا ، تاریخی حوالے بے حد دلچسپ تھے .
نعیم احمد باجوہ Sep 07, 2012 10:50am
بہت عمدہ
Saeed Ahmed Chishti Oct 24, 2012 02:11pm
Pakistani People should work hard to save the trees.If cutting of trees is necessary then we should plant trees as a subtitude.Government should pay attention at their plantations like Changa manga,Peero wal(Khanewal),Chicha wattni and other plantations at Punjab.Road side Plantation and Canal Bank Plantations need also attention of Forest department Punjab.
Qamar Mehdi Nov 01, 2012 08:48am
آپ نے درست کہا چشتی صاحب۔ یہ حقیقت بہت تکلیف دہ ہے کہ ہمارا اجتماعی رویہ اپنے اردگرد سے اور اپنے ساتھ بسنے والی زندگی کی دیگر اشکال سے بے رحمانہ ہے۔ ہم اس ادراک سے بھی عاری ہوتے جا رہے ہیں کہ ہماری اپنی بقا کا بھی انحصار ان سب کی بقا پر ہے۔ ہم اپنے ہی پیروں پر خود ہی کلہاڑی مار رہے ہیں۔ لیکن ہمیں دعا اور انتظار پر تکیہ کرنے کی بجائے عمل کی راہ پر چلنا ہوگا۔
یمین الاسلام زبیری Mar 02, 2013 06:27pm
قمر صاحب آپ نے غالبا آخری مضمون میں کہا تھا کہ آپ کی کتاب مکمل ہے مگر چھپائی کا خرچہ زیادہ ہے. آپ مقتدرہ قومی زبان والوں سے رابطہ کریں، ان کے پاس شائد ایسا پروگرام ہے کہ وہ آپ جیسے مصنفین کی کتاب چھاپنے میں مدد کر سکیں.