روزانہ پانچ سال سے کم عمر 275 بچے موت کا شکار ہو جاتے ہیں, سروے۔ اے ایف پی فوٹو

کابل: اقوام متحدہ کے اشتراک سے کیے گئے ایک حکومتی سروے کے نتائج میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جنوبی افغانستان میں ایک تہائی بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔

 یہ اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ سن دو ہزار ایک میں، امریکی زیر قیادت نیٹو فوجی کارروائی کے بعد سے اب تک جنگ زدہ افغانستان کی اربوں ڈالر امداد کے باوجود غذائی کمی پر قابو پانے کی کوششوں میں بہت تھوڑی بہتری آئی ہے۔

 کلسٹر سروے کے مطابق ملک بھر میں اٹھارہ فیصد یا تقریباً دس لاکھ بچے ایسے ہیں جو غذائی کمی کا شکار ہیں۔

 اکتوبر دو ہزار دس تا مئی دو ہزار بارہ پر محیط عرصے میں کیے گئے سروے کے مطابق ملک کے جنوبی حصے میں پانچ سال سے کم عمر 29٫9 فیصد ایسے بچے ہیں جو شدید غذائی کمی کا شکار ہیں۔

 یہ حصہ افغانستان میں سب سے کم ترقی یافتہ اور نہایت شورش زدہ تصور کیا جاتا ہے۔

 عدم تحفظ کے باعث پسماندہ  جنوبی افغانستان میں امدادی تنظیموں کو قدم جمانے کے کم مواقع میسر آئے اور ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں یہاں صحت عامہ تک عوامی رسائی بھی بہت کم ہے۔

 سروے میں کہا گیا ہے کہ مشاہدے کے مطابق جنوب کے مقابلے میں غذائی کمی کی سب سے کم شرح ملک کے اُن وسطی علاقوں میں ہےجہاں طالبان اثرورسوخ نسبتاً کم ہے۔

 'بچوں کو بچائیں' یا 'سیو دی چلڈرن'  نامی غیر سرکاری تنظیم کی ترجمان کرسٹائن روئرز نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ امدادی اداروں اور افغان حکومت، دونوں نے طویل عرصے تک غذائی کمی کے مسئلے کو نظرانداز کیا ہے اور اب یہ ملک کے مستقبل کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔

 افغانستان میں غذائی کمی سے متاثر بچوں کے بارے میں پہلا سروے سن دو ہزار چار میں کیا گیا تھا۔ کرسٹائن کا کہنا تھا کہ 'اُس وقت بھی غذائی کمی کی شرح اتنی ہی تھی،جتنی کہ اِس وقت سامنے آئی ہے۔'

 تنظیم کی ترجمان کا کہنا تھا کہ 'غذائی کمی، ایک تہائی افغان بچوں کی اموات کا سبب ہے۔'

 اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں ہر روز دو سو پچھہتّر بچے مرض  قابلِ علاج ہونے کے باوجود موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ان میں وہ بچے بھی شامل ہیں جن کی اکثریت پانچویں سالگرہ تک  نہیں پہنچ پاتی۔

 ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان بچوں کی موت کی اصل وجہ غذائی کمی ہے۔

 ماہرینِ صحت نوزائیدہ بچوں کی بہترین نشوونما کے لیے والدین کی موثر آگاہی  اور وسیع پیمانے پر حکومتی  کوششوں پر زور دیتے ہیں۔

 سروے کے مطابق مشاہدے میں آیا ہے کہ غذائی کمی کا شکار علاقوں میں کمسن بچوں کی خوراک میں عام طور پر چائے اور روٹی شامل ہے۔ یہ خوراک بچوں کی نشو و نما کی بنیادی ضروریات پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔

 کرسٹائن روئرز نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ سن دو ہزار چودہ تک نیٹو کے لڑاکا فوجی دستوں کے افغانستان سے انخلا کے مرحلہ وار منصوبے اور سیکورٹی ذمہ داریاں افغان افواج کے حوالے کرنے سے تنظیم کی کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

 افغانستان میں غذائی خدمات کے حوالے سے ادارے ایک عرصہ سے فنڈز سے محروم ہیں۔ کرسٹائن کے مطابق انہیں قابل ترجیح نہیں سمجھا گیا۔

 اُن کا کہنا تھا کہ 'ہمیں خدشہ ہے کہ نیٹو افواج کے انخلا کے باعث غذائی قلت کا توجہ طلب معاملہ نظر انداز ہوجائے گا۔'

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں