راجستھان کے ضلع ناگور کے گاؤں پیپاسر میں راجپوتوں کے پنوار خاندان کے ٹھاکر لوہت جی پنوار اور شریمتی ہنسا دیوی کو خدا نے۱۴۵۱ میں ایک بیٹے سے نوازا۔ شادی کے طویل عرصے بعد منتوں مرادوں کے ثمر اس بیٹے کا نام جم بھیشور تجویز ہوا۔

بھگوان کرشن کے جنم دن پیدا ہونے والا  یہ بچہ اپنے آپ میں کچھ منفرد تھا۔ سات سال کی عمر تک تو بولتا بھی نہ تھا۔ اپنے آپ میں گم یہ نوجوان شری کرشن جی مہاراج کی طرح ۲۷ برس بن باس میں بھی رہا۔

۱۴۸۵ میں آنے والے خوفناک قحط نے پورے راجستھان کو بری طرح متاثر کیا۔ مکین گھر بار چھوڑ کر پڑوسی ریاستوں کی جانب ہجرت پر مجبور ہوئے۔

 جم بھیشور کو اس صورتِ حال نے رنجیدہ کر دیا۔ وہ حالات پرغور و فکر کیا کرتے۔ سوچ بچار نے ان کے ۲۹ اصولوں پر مبنی ایک دستاویز کو جنم دیا جو بجا طور پر برصغیر پاک و ہند کے لوگوں اور ماحول کے مابین دوستی کا پہلا اعلامیہ کہلا سکتی ہے۔

لوگوں کے اذہان و قلب کو کھولنے والی اس دستاویز نے ہی نوجوان جم بھیشور کو 'گرو جم بھیشور' بنا دیا۔

گرو جم بھیشور جی کے انہی ۲۹ اصولوں  کی بنا پر ان کے پیروکار (بش ۲۰ ، نو ۹ ) بشنوئی کہلاتے ہیں یعنی ۲۹ اصولوں کو ماننے والے۔ ان کے چاہنے والے انہیں پیار سے 'جم بھو جی' بھی کہتے ہیں۔

 اُنتیس اصولوں میں سے آٹھ کا تعلق براہ راست جنگلی جانوروں اور نباتاتی حیات کے تحفظ سے ہے۔ سات صحت مند سماجی تعلقات پر اسرار کرتے ہیں۔ دس اصول اپنے ماننے والوں کو ذاتی صحت کی حفاظت اور طہارت کی تعلیم دیتے ہیں۔ صرف چھ اصول عبادات سے متعلق ہیں۔

یہ گرو کی تعلیمات کا ہی فیض ہے کہ راجستھان میں، صحرا کے پاکستانی حصہ کی نسبت زیادہ درخت ہیں اور معدوم ہوتے کالے ہرن اور نیل گائے کی بڑی تعداد موجود ہے۔

بشنوئی اتنے ماحول دوست اور مہربان ہوتے ہیں کہ ان کی عورتیں صحرائی جانوروں کے لاوارث بچوں کو اپنا دودھ تک پلاتی ہیں ۔ انسانوں اور جانوروں کے درمیان ایسی ہم آہنگی  شاید ہی دنیا میں کہیں اور دیکھنے کو ملے۔

گرو جم بھیشور نے صرف ۳۴ برس کی عمر میں ریت کے ایک بڑے ٹیلے، جسے  سمارا تھل دھوراکہا جاتا تھا، سے ایک نئے عقیدے کی بنیاد رکھی۔ ہم انہیں فرقہ یا عقیدے کے بجائے ماحول دوست گروہ بھی کہہ سکتے ہیں۔

مذہبی فرقے اپنی عبادات سے شاخت ہوتے ہیں جب کہ بشنوئی اپنی روزمرہ زندگی کے اصولوں کی بنا پر۔

 زیادہ تر مذہبی فرقے اپنے ازلی یا پھر ابدی ہونے پر اصرار بھی کرتے ہیں۔ مذہبی رسومات اورعبادات میں تبدیلی کی خواہش کرنا یا ایسا کرنے کی جسارت کرنا آپ کو ان کے دائرے سے ہی خارج کر سکتا ہے۔

دیکھا گیا ہے کہ بدلتی زندگی ان میں تغیر کی متقاضی ہوتی ہے اور یہ اپنے اٹل اور ابدی ہونے پر اصرار کی وجہ سے عملی زندگی میں افادیت کھو دیتے ہیں۔

 بنیادی طور پر ہندو مذہب سے جنم کے باوجود گروجم بھو جی نے مرنے والوں کی آخری رسومات میں بہت زیادہ لکڑی کے استعمال سے مُردہ تن جلانے کے بجائے اسے دفن کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔

عمر کے باقی ۵۱ برس گرو نے نہ صرف راجستھان بلکہ ہندوستان کے طول و عرض میں اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہوئے بتائے۔

ان کی تعلیمات پر مبنی شاعری شبدوانی کے نام سے دستیاب ہے۔ کل ۱۲۰ شبد(نظمیں) ہی ہم تک پہنچ پائے ہیں اور وہی ان کی تعلیمات کو سمجھنے کے لیے کافی سمجھے جاتے ہیں۔

 راجستھان کے علاوہ بشنوئیوں کی بڑی تعداد گجرات، ہریانہ، پنجاب اور دہلی میں آباد  ہے۔ ان کے مذہبی اجتماعات سال میں دو بار راجستھانی ضلع بیکانیرمیں موکم کے مقام پر منعقد ہوتے ہیں جنہیں میلہ کہا جاتاہے۔ بیکانیر پاکستان  کے ضلع بہاولپور کے مقابل، سرحد پاربھارت کا حصہ ہے۔

 گورو جم بھیشور جی ۱۵۳۶ میں ۸۵ سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے اور موکم ضلع بیکانیر کے مقام پران کا جسد خاکی، انہی کی تعلیمات کے مطابق سپرد خاک کیا گیا ۔

ان کی یاد میں ایک تعلیمی ادارہ بھارت کی ریاست ہریانہ میں  'گورو جم بھیشور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی' کے نام سے قائم ہے اور بلا لحاظ مذہب و ملت سب کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے۔ شاید اپنے محسنوں کو یاد رکھنے کا یہ سب سےعمدہ انداز ہے۔

گرو جم بھیشور کی تعلیمات بے اثر نہیں تھیں اور امریتا دیوی بھی آخری جانثار نہیں تھیں۔

ہر دور میں ان کا بلند کیا ہوا پرچم لے کر عشاق کے بہت سے قافلے نکلےاوراپنے اپنے وقت پر جانوں کا نذرانہ پیش کرتے بدستور آگے بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ ہنوز یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

 کبھی کوئی نہال چند (۱۹۹۶) معصوم ہرنوں اور نیل گائیوں کے خطرناک شکاریوں کے تعاقب میں اپنی جان وارتا دکھائی دیتا ہے تو کبھی کارما اور گورا (۱۶۰۴) اپنے گاؤں میں لگے جنڈ کے درختوں کو بچاتے زندگی ہار دیتی ہیں۔ قربانیوں کی فہرست بہت طویل ہے اور فرداً فردا ًان کا تذکرہ ان صفحات میں ممکن نہیں۔

بشنوئی اپنے اصولوں کی بجا آوری میں کسی مصلحت سے کام نہیں لیتے اور اٹل رہتے ہیں۔ اس کی مثال کروڑوں پرستاروں  کے دلوں کی دھڑکن ہندوستانی فلمی ہیرو سلمان خان پر قائم شکار کا کیس ہے۔

یکم اکتوبر ۱۹۹۸ کو رات کے وقت پونم چند بشنوئی نے انہیں ایک کالا ہرن شکار کرتے دیکھ لیا اوراس کی شکایت پر نہ صرف سلمان خان گرفتار کر لیے گئے بلکہ تمام تر کوششوں کے باوجود نہ کوئی گواہ منحرف ہوا اور نہ ہی مدعی مقدمہ سے دستبردار ہوا۔

سلمان خان کے خلاف کیس آج  بھی قائم ہےاور وہ صرف ضمانت پر رہا کیے گئے ہیں۔

 بشنوئی علاقوں میں ماحول کی حفاظت کو ایک طرف رکھیے کہ وہاں کوئی نہ کوئی ( مرد ، عورت  یا بچہ) تو ہوتا ہی ہے اپنے ہم وطن درختوں اور جانوروں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کو، البتہ گرو جم بھیشور کی تعلیمات اور ان کے ماننے والوں کی قربانیوں نے اسے ایک تحریک اورایک رویہ بنا دیا۔ برصغیر کے طول و عرض میں اس کی تقلید کی گئی۔

گورو جم بھیشور کے ۲۹ اصولوں کی تعلیم کے کوئی ۲۴۵ برس بعد امریتا دیوی اور ان کے ۳۶۳ ساتھیوں نے قربانی کی ایسی مثال قائم کی جس کی نذیر ملنا مشکل ہے۔

 اس عظیم قربانی کے ۲۴۴ برس بعد ۲۶ مارچ ۱۹۷۴ کو بھارت کی ریاست اترا کھنڈ کے ضلع چمولی کے علاقے ہموال گھاٹی کے دور دراز گاؤں'رینی' کی باہمت اور پرعزم کسان خواتین نے جنگل کے ٹھیکیداروں اور سرکاری افسران کی ہر عیاری اور دھونس دھاندلی کو ناکام بنایا۔

جنگل کے ٹھیکیداروں نے درختوں کی کٹائی کے لیے ایک ایسے دن کا انتخاب کیا جب گاؤں کے سب مرد دور واقع سرکاری دفتر سے واجبات وصولی کے لیے گئے ہوئے تھے۔ ان کا خیال تھاعورتیں کب تک مزاحمت کرسکیں گی  لیکن یہ خیال صرف خواب ثابت ہوا۔

ہر طرح کے خوف اور لالچ سے بے نیازکسان خواتین آخری حربے کے طور پر اپنے درختوں سے لپٹ گئیں اور ان سے پہلے کٹنے کا اعلان کیا۔ سارا دن اور ساری رات ان کا پہرا دیا، جب تک ان کے مرد اپنے گاؤں واپس نہ آگئے۔

یہ تحریک اتنی موثر تھی کہ ہمالیہ کے پورے دامن میں لوگوں نے اس کو اپنایا۔ یہ احتجاج برسوں کامیابی سے جاری رہا اور آخر  ۱۹۸۰ میں وزیراعظم اندرا گاندھی نے اگلے ۱۵ برسوں کے لیے (جب تک پوراعلاقہ پھرسے سرسبز نہ ہو جائے) پورے ہمالیائی خطّے میں درختوں کی کٹائی پر پابندی لگادی۔ پھر اسی تحریک نے عوام کی امنگوں سے قریب ترین جنگلات کی سرکاری پالیسی کو جنم دیا۔

تاریخ کی کتابوں میں عوام کی اپنے ماحول اور اپنے ہم وطن پودوں، درختوں سے محبت کی یہ داستان 'چپکو تحریک' کے نام سے جانی جاتی ہے۔ تحریک نے کچھ بڑے لیڈروں کو بھی جنم دیا جن کی بڑی تعداد خواتین پر مشتمل ہے۔

 انہی میں سے ایک لیڈر جناب سندر لال بہوگنا بھی ہیں جنہوں نے چپکو تحریک کو پھیلانے کے لیے ۱۹۸۱ سے ۱۹۸۳ تک ہمالیہ کے پورے دامن میں ۵۰۰۰ کلو میٹر کا پیدل مارچ کیا، ماحول دوستی اور جنگل کی حفاظت اہمیت سے سب کو آگاہ کیا۔

 چپکو تحریک کی کامیابی کا راز اس میں عورتوں کی بڑی تعداد میں شمولیت کو مانا گیا ہے۔

عورتوں اور درختوں کا دیہاتی معیشت میں بہت اہم اور بنیادی تعلق ہے۔ درخت کے تقریباً سبھی اجزا یعنی  پتّے ، جڑیں، چھال، تنا اور پھل پھول وغیرہ کسی نہ کسی مالی منا فع کا باعث ہوتے ہیں۔ جانوروں کے چارے سے لے کر مزیدار پھل تک، اور بیماری میں شفا اور دوا سے لے کر گھر کا چولہا روشن رکھنے تک،  سبھی کاموں میں درخت مدد گار ہوتے ہیں۔

 دیہاتی زندگی کا کارخانہ ، کسی بھی کھاتے میں درج نہ ہونے والی عورتوں کی جان توڑ محنت سے ہی چلتا ہے۔

منہ اندھیرے گائے بھینس کا دودھ دوہنے سے شروع ہونے والا دیہاتی عورت کا دن، گھر کے کام کاج سمیت کھیتوں کی مشقت پر جا کرختم ہوتا ہے۔

تصویر: بشکریہ 'دراویا اسروتا'

ضرور پڑھیں

تبصرے (7) بند ہیں

ویر کسھمیری Sep 11, 2012 03:02pm
زبردست.
طاھر صدیق Sep 13, 2012 09:19am
صحیح ہے
عاصم نسیم بٹ Sep 14, 2012 02:07pm
معلوماتی اور دلچسپ
یمین الاسلام زبیری Sep 15, 2012 05:56pm
زمانہ قدیم سے لے کر موجودہ دور تک چلنے والی اس قدرتی ماحول بچاو تحریک کے بارے میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا. قمر صاحب نے اسے ڈان کے قارئین کو روشناس کرایا ہے. مغرب میں کوئی ماحول کے بارے میں کوئی اچھی بات کرے تو اس کی خوب پزیرائی ہوتی ہے؛ ایسی محمات کو خوب چندے بھی ملتے ہیں. اگر چیکو تحریک کو کوئی تمغہ نہیں مل رہا تو اس میں پاکستان و بھارت کی حکومتوں کی بھی نااہلی ہے. میں اتنا تو کر سکتا ہوں کہ اس تحریک کے "نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا" کےجزبے کو سراہوں.
Akram Khalid Sep 16, 2012 01:25am
دلسچسپ اور قابل عمل تھریک
Qamar Mehdi Sep 17, 2012 07:01am
انڈیا نے گورو جم بھیشور کے نام پر ہریانہ میں ایک یونیورسٹی قائم کی ہے اور امریتا دیوی کی یاد میں ان کے گاوں میں 363 درخت لگا کر یادگار قائم کی اور 1973 کی تحریک کے نتیجے میں 15 سال کے لئے پورے ہمالین ریجن میں‌درخت کاٹنے پر پابندی لگا کر اس کا اعتراف کیا………….دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے کیا کیا. ہماری عدالت عظمہ نے لاہور کینال کے درختوں کے مقدمے میں اپنے فیصلے میں کہا……\”اگر درختوں کے معاملے پر شہریوں کی بات مان لی جائے تو کیا ہم غاروں میں‌رہنا شروع کر دیں\” ……..اب اس پر آپ کیا کہیں گے….یا تو جج صاحبان اس قابل نہیں کہ ماحول کے بارے میں پوری پصویر دیکھ سکیں‌یا پھر کوئی ایسی بات ہے جس پر ثبوت کے بعد بات کرنی چاہیے………
محمد نقی Oct 21, 2012 09:11am
زبردست قمر بھائی یہ تحریر معلوماتی بھی ہے اور فکر انگیز بھی دعا ہے ہمارے ہاں بھی کوئی گرو جم بھیشور پیدا ہو جو ہمیں درختوں سے محبت کرنا سکھائے اور ہمیں ماحول دوست ہونے کی اہمیت کا بتا سکے.شکریہ