۔— اے اہف پی فوٹو

حکومت کا خیال تھا کہ ان کی سیاسی کمان سے نکلے تیر سے گھائل ہو کر عوام بے چارے گریباں چاک کیے مرحبا مرحبا پکار رہے ہوں گے مگر اس ریوڑ نے بھی اب کی بار اپنے حکمرانوں کو غچہ دے ہی دیا ہے۔

شاید خیا ل تھا کہ گستاخانہ فلم کے حوالے سے جو عوامی غم و غصہ سامنے آ رہا ہے اس پر جمعے کے روز سرکاری تعطیل کا اعلان کر کے ایک طرف اسے ٹھنڈا کیا جائے گا ساتھ ہی ایک مذہبی معاشرے میں انتخابات سے ذرا پہلے اپنے لیے نرم گوشہ بھی پیدا کر لیا جائے۔

جو لوگ سرکاری چھٹی کے زمرے میں آ رہے ہیں ان کی ایک بہت بڑی تعداددفتروں سے واپسی کے بعد شاید صرف سودا سلف لینے کے لیے ہی گھروں سے باہر نکلتے ہوں گے، البتہ وہ لوگ جو "عادی احتجاجی" ہیں انہیں احتجاج کرنے کے لیے کسی سرکاری چھٹی کی ضرورت نہیں۔

مثلاََ بات اگر وکلاء حضرات کی کی جائے تو سنا ہے کہ انہیں احتجاجاََ کام روکنے اور تقریباََ لاکھوں کی تعداد میں زیرِ التوا ء مقدمات کے ماہ و سال میں ایک ایک دن کا اضافہ کرنے کی اب اتنی عادت ہو چلی ہے کہ وہ عدلیہ حکومت محاز آرائی سے لے کر خراب موسم تک پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا چکے ہیں۔

خطرہ یہ ہے کہ کہیں وہ رویتِ ہلال پر ہونے والے تنازعہ اور کرکٹ ٹیم کی پارہ صفت پرفارمنس پر بھی کسی دن احتجاج کی کال نہ دے بیٹھیں۔

مسلمان اس فلم کے حوالے سے بہت چراغ پا ہیں اور ہر کسی کے دل اس بیمار ذہنیت کے تحت جنم لینے والی گستاخی پر تڑپ اٹھے ہیں جو آزادیِ اظہار کے پردے کے پیچھے سے ہوئی ہے لیکن احتجاج کا یہ کون سا طریقہ ہے جس میں اپنا ہی منہ تھپڑوں سے لال کر لیا جائے؟

احتجاج کریے اور بھرپور احتجاج کریے لیکن خدارااپنے ہی ٹیکس کے پیسوں سے بننے والی املاک کو توڑ پھوڑ کا شکار مت بنائیے، کیونکہ اس سے شاید ان ملعونوں کو تو کوئی فرق نہ پڑے البتہ آپ احتجاج کے پردے کے پیچھے ہونے والی سیاست کا شکار ہو جائیں گے۔

سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم جس طریقے سے مغرب کو اپنی اقدار اور وہ حرکات جو ہمارے معاشروں میں قابلِ قبول نہیں ہیں، سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کیا اس کے لیے سب سے بہتر یہی راستہ ہے؟

ہم جیسے معاشی بونے اور امداد پر پلنے والی قومیں اپنے ہی مالکوں پر میاؤں نہیں کر سکتیں۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ مغرب اپنے معاشروں میں ہونے والی ایسی حرکات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کرے اور خالی مذمت کی چوسنی دے کر آپ کو بہلایا نہ کرے تو اس کے لیے اپنی نیم مردہ اور مختلف النوع بیماریوں کی شکار معیشت کو اس طرح کی تعطیلات کا تڑکہ دینے سے پرہیز کریں۔

کیوں کہ دنیا میں آج سنی ان کی ہی جاتی ہے جو اپنے پیروں پر کھڑے ہوں۔ بیساکھیوں پر کھڑےہونے والوں کی اور وہ بھی جو کسی اور کی مرہونِ منت آپ کو ملی ہوں، کوئی نہیں سنتا، کیونکہ عالمی برادری میں معذوروں کا کوئی کوٹہ نہیں ہے۔


علی منیر میڈیا سے منسلک قلم کے ایک مزدور ہیں اور خود کو لکھاری کہلانے سے کتراتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

نادیہ خانم Sep 22, 2012 08:10am
شاندار بلاگ ہے. بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا ایک ہی انداز آتا ہے اور وہ ہے کھڑے ہو کر خود پر کلہاڑی کے وار کرنا اور ایسے اعضا پر کرنا جن سے جانبر نہ ہوا جاسکے.
عمر فاروق Sep 22, 2012 08:12am
ڈان سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ افسوس ہے ان پر جنہیں اپنے رسول کی شان میں ہر گستاخی منظور ہے۔
ولی خا ن دومڑ Sep 23, 2012 08:55am
جمعہ دن جو کچھ پاکستان میں ہوا وہ کسی طرح بھی رسول سے عقیدت کے زمرے میں نیں آتا بلکہ یہ پاگل پن اور جنو نیت کے سوا اور کچھ نہیں تھا ارے جس رسول پر گندگی پھینکی گئی اور طرح طرح کی اذیتیں دی گئی اورانہنو ں معاف کردیا وہ سب کچھ جو نبی پا ک کی زندگی میں ان کے ساتھ ہوا اس سے بڑی گستاخی کیا ہوسکتی تھی ؟ خدارا اس رسول کو اور بدنام مت کرو کیونکہ مغرب اب دہشت گردی کو اسلام کے بنیادی احکام کیساتھ جو ڑ رہے ہیں اوراگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں دنیا کو اسلام کا اصل چہرہ دکھانا ہوگا اور اسکے کیلئے بنیاد پرستوں سے پہلے چٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے