جالوزئی کیمپ پشاور میں سوات میں آپریشن کے باعث پناہ گزین بچے روٹی حاصل کرنے کے لیے انتظار کررہے ہیں۔ اے پی فائل فوٹو

اسلام آباد: ایک سروے کے مطابق پاکستان کی اٹھاون فیصد آبادی خوراک کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہے۔

 وزیر برائے تحفظِ قومی خوراک اور تحقیق میر اصراراللہ زہری نے منگل کو سینیٹ کے اجلاس میں بتایا کہ دو ہزار سات ۔ آٹھ میں عالمی بینک اور یو این ڈی پی کے اندازے کے مطابق، 17.2 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے تھی۔

 انہوں نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے زیر اہتمام قومی غذائی سروے دو ہزار گیارہ کے مطابق، اٹھاون فیصد آبادی خوراک کے حوالے سےعدم تحفظ میں مبتلا ہے۔

 اس متاثرہ آبادی میں سے29.6  فیصد ایسے لوگ ہیں جو بھوک یا شدید بھوک سے دو چار ہیں۔

 سینٹ اجلاس کے دوران دیگر غیر سرکاری تنظیموں کے مطالعوں کا بھی ذکر کیا گیا جن میں سسٹینیبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) بھی شامل ہے۔

 ایس ڈی پی آئی کے دو ہزار نو کے مطالعے کے مطابق، 48.6 فیصد آبادی خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے، جن میں سے 22.4 فیصد شدید غربت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

 زہری نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومتی  اقدامات کے حوالے سے ایک تاریک تصویر پیش کی  اور بتایا کہ اکیس مارچ کو ان کی وزارت نے ایک ورکشاپ کے دوران  وزیراعظم کو 'نیشنل زیرو ہنگر پروگرام' پیش کیا تھا۔

 انہوں نے سینیٹ کو بتایا کہ ورک شاپ کے دوران وزیر اعظم کے اعلان کی باقاعدہ منظوری ابھی باقی ہے۔

 زہری نے اس موقع پر تسلیم کیا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے زیرو ہنگر ایکشن مصنوبے کے مسودے میں آپریشنل تفصیلات موجود نہیں۔

 وفاقی وزیرنے زور دیا کہ اس قسم کے جامع منصوبے ترتیب دینے سے پہلے عطیہ دینے والوں اور مقامی اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔

 انہوں نے کہا کہ حکومت نے زراعت کی پیداوار کو بڑھانے اور کسان برادری کو مراعات فراہم کرنے کے اقدامات کے ذریعے صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں