دو پاکستان

پاکستان کے عوام ایسے دو حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں جیسے وہ دو مختلف ملکوں کے شہری ہوں۔ جو پاکستانی ستر کی دہائی سے پہلے پیدا ہوئے انہوں نے وہ پاکستان دیکھا جو موجودہ نئی نسل کے لیے سمجھنا مشکل ہے۔

47' کے ہندو مسلم فسادات کے باوجود مختلف گروہوں میں سقافاتی میل جول موجود تھا۔ مذہب ایک روحانی تجربہ تھا جو صرف عبادات تک محدود نہیں ہوا تھا۔ اقلیتوں  اور دوسرے مذاہب کے درمیان لکیر نہیں کھینچی گئی تھی۔ صقافتی سرگرمیاں اج کل کی طرح اختلاف کی وجہ نہیں بلکہ ہندوں اور مسلمانوں کے درمیان  آپس میں رابطے اور برداشت کا  ذریعہ تھیں۔ یہ دو واقعات شاید اس پاکستان کا چہرہ  دکھا سکیں، جس کے سایے میں ہم نے اپنا بچپن گزارا۔

مسجد

بچپن میں مجھے اپنی ماں کے گاوں کی سیر یاد ہے جو کہ کوہاٹ شہر سے کچھ میل دور واقع ہے۔ امرود کے باغوں کے درمیان یہ سرسبز علاقہ سرمئی، نیلے، سبز اور مٹیالے رنگ کے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ یہ پہاڑ ایک قدرتی جھیل بناتے ہیں جو کہ بہت خوبصورت ہے اور تاندہ ڈیم فیملی پکنک کے لیے پسندیدہ جگہ تھی۔ ہم اکثر پیدل یا ٹانگہ کراۓ پر لے کر گاوں جاتے تھے۔

میری ماں اور خاندان کی عورتیں گھر کے صحن میں ایک بڑے پیپل کے درخت کی نیچے جمع ہوتیں اور ہم اپنے دوستوں اور ھم عمر لڑکوں کے ساتھ باہر نکل پڑتے۔ اس گاوں میں گنتی کے کچے گھر تھے-  دو گھر بلکل سنسان رھتے تھے لیکن ایک گھر جس کے صحن کی دیواریں نیچے تھیں آسیب زدہ بھی لگتا تھا۔

السٹریشن -- صابر نذر --.

صحن کے بیچ ایک کمرہ تھا جس کا دروازہ ٹوٹا ہوا تھا اور اندر مکڑی کے جالے دور سے نظر آتے تھے۔ ہمارے قدم تیز ہوجاتے اور ہم اس سے پرے ہٹ کر گزرتے۔ ہم نے ڈر کے مارے کبھی اپنے ہمجولیوں سے اس کے بارے میں سوال نہیں کیا۔ کچھ سال بعد جب میں نے اپنے دوست سجاد سے اس سنسان گھر کے بارے میں سوال کیا۔ وہ ہنسا اور کہا، "یہ مسجد ہے"۔ جب میں نے پوچھا کہ یہ ہر وقت خالی کیوں رہتی ہے؟ تو وہ بولا، ہمارے گاوں میں ملا کچھ دنوں سے زیادہ نہیں ٹہرتا اور نمازی بھی کم ہو تے ہیں"

تین سال پہلے مجھے اس گاوں تقریبا تیس سال بعد جانا ہوا۔ اب وہاں پختہ گھر بنے ہیں، بجلی آچکی ہے، اور میرے دوست سجاد کے گھر کے سامنے ایک چھوٹا سا سکول بھی ہے۔ سجاد اب دادا بن چکا ہے، اس نے بتایا کہ گاوں میں ٹی وی کیبل کی اجازت نہیں ہے۔ میرے کریدنے پر اس نے بتایا کہ ارد گرد کے گاوں کے بڑوں کو قریبی تبلیغی جماعت سنٹر میں بلایا گیا اور ان سب بڑوں نے 'رضاکارانہ' طور پر فیصلہ کیا کہ اس علاقے میں ٹی وی کیبل کو نہ آنے دیا جاے۔

واپسی پر میں نے ٢٠٠ کنال پر محیط تبلیغی سنٹر دیکھا جو ہنگو اور پاراچنار کی طرف جاتی سڑک پر واقع ہے۔ تاندہ ڈیم جو کہ ایک پسندیدہ پکنک سپاٹ تھا، طالبان کی دھمکیوں کے بعد اب فیملی اور عورتوں کے لیے علاقہ غیر بن چکا ہے۔

مندر

کوہاٹ میں ہمارا گھر پی اے ایف کے جنگلے دار احاطے اور امرود کے باغوں سے گھرا ہوا تھا۔ ہمارے گھر کا راستہ ایک بالمیکی مندر سے منسلک تھا۔ مجھے اس مندر میں ہونے والے محفلیں اچھی طرح یاد ہیں۔ میں نے پہلی مرتبہ بالمیکی کی راماین اور مہابھارت کے ڈرامے اسی مندر میں دیکھے تھے۔

ایک کچا چبوترا سٹیج کا کام کرتا تھا۔ گاروڑہ  کا پرندہ چمکیلے گتے اور کاغذ سے بنایا جاتا تھا، تاج بھی چمکیلے گتے سے بنتے تھے اورلکڑِی کی تلواروں پر چاندی کا کاغذ چڑھا ہوتا تھا۔ ایک مسلمان اداکار کو اکثر میں بازار میں دیکھتا تھا جو کہ راون کا کردار ادا کرتا تھا۔ مجھے اس کی اداکاری پسند تھی اور میں حیران ہوتا تھا جب وہ مٹی کا تیل پی کر فوارے کی طرح آگ منہہ سے پھینکتا تھا۔ دیکھنے والوں میں مسلمان بھی ہوتے تھے اور آخر میں کیلے کے چھلکوں پر پرساد بانٹا جاتا تھا۔

السٹریشن -- صابر نذر --.

میں کورووں اور پانڈووں کے کھیل کو پہچانتا تھا کیونکہ میری ماں بہت اچھی قصہ گو تھیں۔ میں نے اپنی ماں سے مہا بھارت، سیمسن اور ڈیلایلہ، یوسف زلیخا، بالمیکی کی راماین، کالی داس کی شکنتلا، لیلہ مجنوں کی کہانیاں سن رکھی تھیں۔ پھر ہم نے وہ گھر چھوڑ دیا اور ہم پشاور آگیے اور میں یہ قصے کہانیاں بھول گیا۔

دس سال بعد میں اپنے آرٹ کالج کے دوستوں کے ساتھ انڈیا گیا اور میں نے دوبارہ مہابھارت سٹیج پر دیکھا۔ نصیرالدین کرن کا کردار کررہا تھا اور اس کے اپنی ماں کنتی سے مکالمے اس کی بھرپور آواز اور محسورکن اداکاری کا شاہکار تھی۔ مجھ پر کرن کے کردار نے جادو کردیا جو کہ ایک دفعہ پھر میرے شہر کے اداکار کی طرح ایک مسلمان نے ادا کیا تھا۔

اب جب میں ماضی میں جھانکتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ کالج میں آخری سال کی تھیسس پینٹنگ کا نام تھا، ' لنکا کی شکست'۔ اس تصویر میں ایک گاے کو ہاتھی اور اس کو ایک کچھوے کے اندر دکھایا گیا ہے۔ سیتا لکشمن ریکھا کے اندر بیٹھی ہے جبکہ راون ایک بھکاری کے روپ میں سیتا کو لکیر سے باہر آنے کے لیے اکساتا ہے۔ لنکا کو ایک قطار میں گھروں کے ذریے دکھایا گیا ہے، جس کے اوپر ہنومان چھلانگیں لگا کرجارہا ہے، اور اس کی دم پر آگ لگی ہوئی ہے جس کہ وجہ سے پوری لنکا کو آگ لگ جاتی ہے۔

السٹریشن -- صابر نذر --.

اس تصویر کا موضوع تھا کہ اب نو آبادیاتی نظام ہمارے معاشرے کے اندر سرایت کر چکا ہے۔ سیتا کی سونے کے ہرن کو حاصل کرنے کی خواہش، اس چمکتی دولت کا پیچھا کرنا ہے جس کا روپ ایک راکھشس دھارتا ہے، تاکہ رام کو سیتا سے دور لے جاے۔

میری استاد نے اعتراض کیا کہ اس کہانی کے سمبل کو لوگ نہیں سمجھ سکیں گے۔ میں نے کہا کہ یہ کہانیاں میں نے بچپن میں ڈرامہ کی صورت دیکھیں ہیں اور لوگ ان کو پہچان سکتے ہیں۔ میں نے ایک مزدور کو بلایا جو کہ سٹوڈیو کی دیواروں پر قلعی کر رھا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ اس تصویر میں کسی کردار کو پہچانتا ہے۔ اس نے جھجکتے ہوے ہنومان کا نام لیا۔ "تو پھر انہی مذدوروں کو اپنی تصویر پر بات چیت کے لیے بلاو" میری استاد چیخ کر بولی اور پینٹنگ اسٹوڈیو سے باہر نکل گئی۔


صابر نذر ایک کارٹونسٹ ہیں

تبصرے (1) بند ہیں

انور امجد Nov 15, 2012 06:23am
صابر نظر صاحب آپ کی بچپن میں تربیت کم از کم ایک مسلمان گھرانے کے لئے بہت غیر روائتی انداز میں ہوئی ہے۔ اور آپ جن دو ذمانوں کی بات کر رہے ہیں وہ 1947 سے پہلے اور بعد کے تو ہو سکتے ہیں مگر 70 کی دہائیوں سے پہلے اور بعد کے نہیں۔ تقسیم سے پہلے مسلمان اور ہندو بڑی تعداد میں ساتھ ساتھ رہتے تھے اور ایک دوسرے کے مذاہب کے بارے میں واقفیت ہو گی۔ پاکستان بننے کے بعد پیدا ہونے والی نسل کی ہندو مذہب کی معلومات صفر ہیں۔ پاکستان بنانے کا اصل مقصد یہی تھا کہ ہندو اکژیتی معاشرہ میں مسلمان اپنی شناخت کھو نہ دیں اور ہندوانہ ثقافت اپنا نہ لیں۔ معاف کیجیے جس طرح کا اثر آپ نے قبول کیا ہے اور اس کا پرچار کر رہے ہیں اسی سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا ہے۔ اللہ اس ملک کو تمام شر سے محفوظ رکھے۔ دہشت گردی سے جنگ کی آڑ میں اسلام ختم کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔ سویت یونین نے پون صدی تک اسلام کو مٹانے کی کوشش کی مگر اسلام آج بھی ان ریاستوں میں قائم ہے اور سویٹ یونین ختم ہو گیا۔