فائل فوٹو --.

رات کی خنکی بڑھتی جاتی تھی اور نیم پاگل ہوائیں کراہ رہی تھیں۔ نیچے گلی میں اخبار والے محنت کش اپنے غموں کو کام ختم کرنے کے بعد پھر گلے میں لٹکا چکے تھے اور چھاپنے والی مشین یوں ساکت تھی جیسے کسی بیوہ کی آہ۔

صرف ایک نیا گارڈ اپنی آنکھیں یوں پھیلائے بیٹھا تھا جیسے نیم تاریکی میں ہرن آنکھیں پھاڑے دیکھتا ہے، یوں تو دفتر میں درجنوں گارڈز کام کرتے ہیں اور اُنکے اوقات کار میں مسلسل تبدیلی آتی رہتی ہے لیکن مجھے کئے آنیوالوں کا پتہ چل جاتا ہے۔

دراصل اگر کوئی گارڈ مجھے دیکھ کر کرسی سے کھڑا ہونا شروع کردے تو سمجھ لیجیے کہ موصوف نووارد ہیں کیونکہ میری ہیتِ کذائی سے وہ مجھے کوئی بڑا چلتا پرزہ سمجھ لیتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں اپنی وضع قطع سے کوئی بڑا صحافی دکھائی دیتا ہوں یا کوئی آفیسر لگتا ہوں بلکہ قصہ یہ ہے کہ میں بالکل نہیں لگتا۔

بہرحال دو ایک دن بعد گارڈ کو حقیقت کا پتہ چلتا ہے اور وہ مجھے نارمل لینا شروع کردیتے ہیں بلکہ بعض مواقع پر تو میرے بارے میں ’’گستاخانہ‘‘ رائے دیتے بھی پائے جاتے ہیں۔ دراصل وہ جان لیتے ہیں کہ میں اتنا بڑا مگرمچھ نہیں ہوں کہ مجھے سنجیدگی سے لیا جائے۔ بہرحال اول جلول ہونے کے اپنے ہی کچھ فوائد ہیں۔

ایک دفعہ مجھے ایک گارڈ نے روکا اور پوچھا کہ وہ اپنے بیٹے کو کسی ماڈرن سکول میں کیسے پڑھا سکتا ہے۔

:"تم کسی ماڈرن اسکول کی فیس برداشت نہیں کرسکتے"، میں نے اُسے قدرے اضطراب سے بتایا۔

:"گاؤں میں میری کچھ زمین ہے ،میں وہ بیچ دوں گا"، اُس نے خود اعتمادی سے کہا۔

:"کتنے بچے ہیں تمہارے؟" میں نے کرید تے ہوئے پوچھا۔

:"سات"، اُس نے تفاخر اور شرمندگی کے ملے جلے احساس کے ساتھ بتایا۔

:"اگر تم اپنا سارا سرمایہ ایک ہی بچے پر لگادوگے تو باقی کیا کریں گے"،  میں نے چبھتے ہوئے انداز سے پوچھا۔

:"اگر میں نے ایک بچے کو جو کہ سب سے بڑا ہے، جدید تعلیم دے دی تو میں سب کو طالبان بننے سے بچالوں گا۔ میں انہیں لوگوں کے گلے کاٹنے اور انجان گولیوں سے بھنتے دیکھنا نہیں چاہتا، میں چاہتا ہوں وہ آپ لوگوں کی طرح دفاتر میں ہوشیاری سے کام کریں"

خیر میں نے اسے ٹالنے کے لئے (یہ سوچتے ہوئے کے گارڈ کی ساری گفتگو محض تخیل کی بے لگام اڑان تھی) گھڑی دیکھتے ہوئے پوچھا، "تمہارا گاؤں کہاں ہے"

’’باجوڑ‘‘ اُس نے خفت اور سختی سے جواب دیا۔

آدمی سمجھدار تھا لہٰذا مزید بور نہیں کیا اور خاموشی سے ایک طرف کو ہوگیا.

سڑک پر میں نے ایک رکشے کو ہاتھ دیا اور اُسے غیر متوقع طور پر رکنا پڑا، رکشہ کی چیخ پوری گھن گرج کے ساتھ ڈیوس روڑ پر پھیل گئی (یہ وہی ڈیوس روڑ ہے جس کی سڑکوں اور چوراہوں کی اسلامائیزیشن کے بعد نام سرآغاخان روڑ ہے)

وہ میرے دفتر سے ویلینشیا جو کہ پچیس کلومیڑ دور ہے جاتے ہوئے تامل کررہا تھا اور یہ اُس کرایہ کی وجہ سے تھا جس کی میں نے اُسے پیش کش کی ۔

’’جناب! اتنے کم پیسوں میں تو کوئی میرے مُنہ پر چانٹا بھی نہیں مارے گا‘‘ اُس نے التجا کی۔

"تم  کیا اب کوٹ بھی لوگے کرایہ کے ساتھ!؟"، میں نے تلخی سے کہا۔ خیر کچھ سودے بازی کے بعد میں رکشہ میں بیٹھ گیا اور ہم روانہ ہوگئے۔

میں نے محسوس کیا کہ رکشہ بہت باریک بینی سے سجایا گیا ہے، سائیڈ والے دروازوں پر مصنوعی پھول، خوبصورت ہار اور چھوٹے چھوٹے آئینے پیوست تھے۔ رکشہ کے اندر کہیں نیلی روشنی پھیلی ہوئی تھی جوکہ یاسمین کی خوشبوکے ساتھ مل کر وارفتہ کئے ہوئے تھی۔ پاس ہی ایک چھوٹا سا صندوق بنا ہوا تھا جس میں پرانے اخبار اڑسے ہوئے تھے۔

’’یار یہ رکشہ ہے یا کسی طوائف کا کوٹھا ہے؟‘‘ میں نے اُسکی جمالیاتی حس پر چوٹ کرتے ہوئے طنزاً پوچھا۔

’’جناب آپ جیسے لوگوں کی تو ہم خدمت کرتے ہیں۔ اصل میں ہماری دیہاڑی ہماری کمائی ہوتی ہے اور وہ ہم لیتے ہیں خوبصورت جوڑوں سے جن کیلئے یہ رکشہ ہی غنیمت ہوتا ہے‘‘ اُس نے شرارتی انداز سے کہا اور پھر اس تفصیل میں چلا گیا کہ کیسے وہ جوڑوں سے روپے اینٹھتا ہے، کیسے پردہ گرا کر اور پیچھے دیکھنے والے آئینہ کا مُنہ موڑ کرسڑکوں کی خاک چھانتا پھرتا ہے۔

میں جو پہلے ہی عشق ممنوع کے پیچھے بھاگتی نسل سے زچ تھا موضوع بدلتے ہوئے پوچھا کہ وہ کس سیاسی جماعت کو ووٹ دے گا؟

میں اُس سیاسی جماعت کو ووٹ دوں گا جو تین چیزیں سستی کرنے کا وعدہ کرے۔ نمبر ایک لٹھا جس سے کہ کفن بنتا ہے۔ نمبر دو پھول جو قبروں پر بکھیرے جاتے ہیں اور نمبر تین دو گز زمین کسی قبر ستان میں تاکہ غریب کیلئے کم از کم آسان ہوجائے۔

یہ سنتے ہوئے غیرارادی طور پر میرے ذہن میں سونامی اٹھنے لگا اور سونامی کے ساتھ کاظم رضا جس نے عمران خان سے پوچھا تھا کہ جب وہ برسر اقتدار آیں گے تو پاکستان میں ہم جنس پرستوں کا کیا مقام ہوگا؟

میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا عمران خان ہمیں اس دلدل سے نکال سکتے ہیں  تو وہ کہنے لگا، ’’عمران خان سب کچھ کہتے ہیں سوائے مہنگائی کم کرنے کے وہ محنت کشوں سے متعلق کوئی بات کرتے ہی نہیں. بڑی بڑی باتیں تو ہانکتے ہیں لیکن اُس اکثریت کی بات نہیں کرتے جو محروم اور مجبور ہے‘‘

"کتنا کما لیتے ہوتم ایک دن میں؟"، میں نے خود پر تجسس طاری کرتے ہوئے پوچھا۔

ایک ہی ہلے میں اُس نے بتایا کہ وہ تین سے پانچ سو تک کمالیتا ہے، اُسکے سات بچے ہیں اور والدین ہیں جو اُسکے ساتھ ہی رہتے ہیں۔

میرے یہ پوچھنے پر کہ وہ اتنے بڑے خاندان کو کیسے چلاتا ہے، اُس نے بتایا کہ پچھلے کچھ عرصہ میں جب نوبت فاقوں تک پہنچ گئی تو کسی نے مشورہ دیا کہ بچوں کو مدرسہ میں داخل کروادو، کم ازکم روٹی اور تعلیم تو مفت ملے گی!

اُس نے مزید بتایا کہ چار بچوں کو شجاع آباد کے ایک مدرسے میں ڈال دیا اور سب سے بڑے کو ایک ورکشاپ میں۔ وہ خوش تھا کہ اُسکے پیر صاحب نے کرم کیا اور اللہ کی ہدایت اُس تک پہنچنے کا وسیلہ بنے وگرنہ اُسکے بچے بھی گانے بجانے جیسی علتوں میں پڑگئے ہوتے۔

بس جی بچوں کو اخلاق باختہ کردیا ہے ان فلموں اور ڈراموں نے میں بتایا نا کہ میری آمدن ہی چوری چھپے ملنے والے جوڑوں سے ہوتی ہے۔

"لیکن شاید تمہیں علم نہ ہوکہ مدرسوں میں کیا تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ بچے مذہبی جنونی ہوجاتے ہیں اور دہشت گردی کی راہ پر چل نکلتے ہیں"، میں نے اُسے سمجھایا۔

"اچھا پھر کیا ہوا اگر دہشت گرد بن جائیں گے؟" اُس نے طنزاً کہا۔

"یار تم عجیب بات کرتے ہو، اتنے ظالم ہوتم کہ چھوٹے سے فائدے کے لئے اپنے بچوں کی زندگی داؤ پرلگارہے ہو؟"، میں نے زچ ہوکر پوچھا۔

او جناب کیا ہوجائے گا زیادہ سے زیادہ!

"یہ مذہبی گروپوں کے ہتھے چڑھ جائیں گے۔کافروں سے لڑتے لڑتے گولی لگ جائے گی۔ جان گنوادیں گے، کم از کم بھوکے تو نہیں مریں گے نا!"

"میرے ساتھ رہیں گے تو بس فاقے کرتے رہیں گے ترستے رہیں گے۔"

میں خاموشی سے اُسے تکتا رہا، جی چاہا کہ مذہبی انتہا پسندی پر ایک لیکچر دوں لیکن خاموش رہا۔ سرمایہ دارنہ جمہورتیوں میں ’’نعمتوں‘‘ کی غیرمساویانہ تقسیم اور جمہوریت کے علاوہ کسی بھی نظام میں دکھوں کی مساویانہ تقسیم پر میں کچھ نہیں بول سکتا کیونکہ معدودے چند خوشحال اور اربوں بدحال لوگوں کے درمیان تفریق بڑھتی جارہی ہے۔

آج دو برس بعد میں ایک رکشہ میں بیٹھ کر اپنے دفتر جارہا ہوں، اسے مصدق چلارہا ہے۔ مصدق وہی گارڈ ہے جس کا تعلق باجوڑ سے ہے۔ اس نے اپنی زمین بیچ دی ہے اور اپنے بچوں کو اسکول میں پڑھا رہا ہے۔

مصدق نے مجھے اشتیاق کے بارے میں بتایا جو ایک رکشہ ڈرائیور تھا اور آج کل ریاستی ایجنسیوں کی تحویل میں ہے۔ اُس پر الزام ہے کہ اُس نے چند دہشت گردوں کی مدد کی ہے۔


ذیشان حسین ٹی وی پروڈیوسر ہیں جو فلسفہ، ادب اور سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

syed64 Nov 19, 2012 11:16am
بہت خوب ذیشان صاحب آپ نے بہت متاثر کن انداز میں اپنے ارد گرد کےماحول کو بیان کیا ہے۔ ہمارے آس پاس جو ہورہا ہے وہ عام آدمی پر کس طرح اثرانداز ہورہا ہے آپ کی تحریر نے اس کو دو مختلف پہلووٓ ں سے بہت خوبصورتی کے ساتھ الفاظ کا پیراہن دیا ہے۔ ایک مختصر سے کالم میں آپ نے ملکی سیاست، روز افزوں بڑھتی ہوئی دہشت گردی، عوام الناس کی رائے اور ان کے حالات پر بہت عمدہ طریقے سے روشنی ڈالی ہے۔ عوام کے دو طبقوں کو ایک باجوڑ کے مصدق اور دوسرے رکشہ ڈرائیور کی سوچ اور ان کی اپروچ کو جس طرح بیان کیا ہے وہ حقیقتاً بہت متاثر کن ہے۔ خاص طور پر رکشہ والے کی زبان سے یہ فلسفہ کہ میں اُس سیاسی جماعت کو ووٹ دوں گا جو تین چیزیں سستی کرنے کا وعدہ کرے۔ نمبر ایک لٹھا جس سے کہ کفن بنتا ہے۔ نمبر دو پھول جو قبروں پر بکھیرے جاتے ہیں اور نمبر تین دو گز زمین کسی قبر ستان میں تاکہ غریب کیلئے کم از کم آسان ہوجائے۔ ہمارے معاشرے اور سیاست پر ایک نشتر ہے۔ کاش کہ کوئی عوام کی مجبوریوں اور محرومیوں کا صحیح طور پر ادراک کرسکے اور ان کا مسیحا بن سکے۔