پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی۔ فائل فوٹو

پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ کی سزا یابی پر اپیل نہ کرنے کے فیصلے نے جوابات دینے کے بجائے مزید کئی سوالات کو جنم دیا ہے جن میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ حکومت کا آخر ارادہ کیا ہے۔

وزیراعظم کے قریبی حلقوں کے مطابق اس مقدمے میں تین چیزیں داؤ پر ہیں:ان کا مجرم قرار دیا جانا، ان کی سزا اور آخر میں نااہلی۔ وزیراعظم عدالت میں تیس سیکنڈ کی سزا بھگت چکے ہیں جبکہ مجرم قرار دیے جانے کے خلاف اپیل پر ان کے حق میں فیصلہ آنے کا کوئی امکان نہیں جس کے بعد رہ جاتا ہے ان کی نااہلی کا حل طلب معاملہ۔

قومی اسمبلی کی اسپیکر ڈاکٹر فہمیدا مرزا کی رولنگ کے بعد وزیراعظم کی ٹیم کے خیال میں اب معاملہ ملک کے چیف ایگزیکیوٹیو اور سپریم کورٹ کے درمیان نہیں بلکہ پارلیمان اور سپریم کورٹ کے درمیان کا ہو کر رہ گیا ہے۔

اگر عدلیہ وزیراعظم کے مستقبل کے معاملے کو مزید  طول دے گی تو حکومت پالیمان کے پیچھے چھپ جانے کو۔

اگر حکومتی جماعت کا یہی منصوبہ ہے تو اس سے گیلانی صاحب کو مزید فائدہ پہنچے گا۔اس طرح وہ توجہ کا مرکز نہیں رہیں گے اور وہ اس وقت جس سیاسی درجہ حرارت کا سامنا کر رہے ہیں قدرے کم ہو جائے۔

اس طرح اپیل نہ کرکے حکومت نے سنہ دو ہزار نو میں ہونے والے این ار او کے معاملے سے لے کت اب تک کی اپنی حکمتِ عملی سے انحراف کیا ہے۔

اب تک حکومت نے سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کے خلاف فیصلہ کن کارروائی سے بچنے کیلئے تمام تر قانونی یا سیاسی حربے استعمال کیے ہیں۔

البتہ اب اپیل دائر نہ کرنے سے اسپیکر کی رولنگ کے خلاف درخواست دائر ہونے کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ممکنہ نتائج میں ایک غیر پسندیدہ فیصلہ سامنے آنا اور معاملے کی الیکشن کمیشن کو حوالگی شامل ہیں ۔

اگر حکومت نااہلی کے خلاف اپیل دائر کردیتی تو اسے مزید وقت مل جاتا اور وہ یہ کہہ سکتی تھی کہ معاملہ عدالت میں ہے اور اپیل کا فیصلہ آنے تک اسے کسی دوسرے فورم پر اٹھایا نہیں جا سکتا۔

تو کیا حکومت نے اپیل نہ دائر کرکے غلطی کی ہے؟

اپیل نہ کرنے کے فیصلے کے پیچھےایک گہری سوچ نظر آتی ہے جن میں وزیراعظم اور صدر آصف علی زرداری کی نظریں شامل ہیں جو کہیں اور مرکوز ہیں۔

کیا حکومت کا اس سال کے آواخر میں انتخابات کروانے کا منصوبہ تو نہیں؟ آگر ایسا ہے تو پھر حکومت کو سپریم کورٹ سے مزید وقت مانگنے کی ضرورت نہیں۔

بلا شبہ انتخابات کا جلد منعقد ہونا ایک اچھا خیال ہے اور بجٹ کے آنے بعد پاکستان   میں جمہوری عمل کو اس سے مزید تقویت مل سکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں