سپریم کورٹ آف پاکستان کی ایک فائل تصویر۔ اے ایف پی
سپریم کورٹ آف پاکستان کی ایک فائل تصویر۔ اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اڈیالہ جیل کے لاپتہ قیدیوں کا معاملہ حل کرنے کیلیے حکومت کو کل تک کی مہلت دیدی۔

پیر کو چیف جسٹس افتخار محمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے اڈیالہ جیل کے لاپتہ قیدیوں کے مقدمے کی سماعت کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتے، ہر چیز کی کوئی حد ہوتی ہے، بتایا جائے کہ قیدیوں کو کس بنیاد پر حراست میں رکھا گیا۔

ایجنسیوں کے وکیل راجہ ارشاد نے کہا کہ قانون موجود ہے اس کے تحت قیدیوں کوحراست رکھا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین بنیادی حقوق کا تحفظ دیتا ہے اس سے بڑا کوئی قانون نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ گیارہ میں سے چار قیدی مرچکے ہیں جبکہ باقی میں سے بھی چار شدید بیمار ہیں، اگر انہیں کچھ ہوگیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا۔

جسٹس افتخار نے کہا کہ بندے مارنے کے لیے تحویل میں نہیں دیے جاتے، آپ یا تو قیدیوں کا ٹرائل کرلیں، یا انہیں رہا کریں۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل دل محمد علی زئی سے استفسار کیا کہ وفاق بتائے،ان قیدیوں کے خلاف کیا ثبوت ہے، نہ وفاقی حکومت، نہ خفیہ ایجنسی، نہ ہی خیبرپختونخوا حکومت جواب دے رہی ہے۔

چیف جسٹس نے راجہ ارشاد سے کہا کہ یہ تماشہ نہیں ہونا چاہئیے، آپ ہمیں جوابدہ ہیں، دو ہزار چھ سے قیدی آپ کے پاس ہیں، اتنے عرصے سے ان کے خلاف کیا کارروائی کی۔

اس پر راجہ ارشاد نے کہا کہ ایجنسیاں اخلاقی طور پر قائل ہیں، ان قیدیوں نے دہشتگرد سرگرمیوں میں حصہ لیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اخلاقی طور پر قائل ہو کر آپ کو اور مجھ کو بھی جیل میں رکھا جاسکتا ہے۔

راجہ ارشاد نے کہا کہ مطلوبہ شواہد نہ ہونے کی وجہ سے ان قیدیوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ نہیں چلایا۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ شہادت نہیں تو انہیں رہا کردیا جائے۔

راجہ ارشاد نے کہا کہ ایجسنیز کسی بے گناہ شخص کو نہیں اٹھاتیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان کے نزدیک تو ہر شخص بے گناہ نہیں۔

جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ حراست ایک وقت کیلیے ہوتی ہے لامحدود مدت کے لیے نہیں ہوتی۔

چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کاغذات گھر دیکھ کر آیا کریں عدالت میں جواب دیں۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل علی محمد زئی نے کہا کہ ان قیدیوں کے خلاف شواہد موجود ہیں، جب کسی کو حراست میں رکھا جائے، تو اس کے حوالے سے 130 دن میں جائزہ لیا جاتا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر شواہد موجود ہیں تو ان کا ٹرائل کیوں نہیں کیا جا رہا، حراستی مرکز والے تو ٹرائل بھی نہیں کرتے۔

عدالت نے ہر 120 دن کے بعد کی تمام جائزہ رپورٹیں طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ تمام فریقین مل کر ان قیدیوں کے معاملہ سے متعلق منگل کی صبح ساڑھے نو بجے تک جواب دیں۔

تبصرے (0) بند ہیں