ریکوڈک منصوبے کی جائے وقوع کا ایک منظر -- فائل فوٹو رائٹرز
ریکوڈک منصوبے کی جائے وقوع کا ایک منظر -- فائل فوٹو رائٹرز

سپریم کورٹ نے حال ہی میں ریکو ڈک تانبہ کے پروجیکٹ کے مائننگ کے معاہدے کو کالعدم اورغیرقانونی قراردیدیا جو بیس سال پہلے بلوچستان حکومت اور بین الاقوامی مائننگ کمپنیوں کے درمیان کیا گیا تھا-

عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں بتایا کہ 23 جولائی 1993 کو کیا جانے والا یہ معاہدہ ملک کے قوانین سے متصادم ہے-

2011 میں ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) نے جواینٹوفگستا آف چلی اینڈ کینیڈا بیرک گولڈ کارپوریشن کے مابین مشترکہ کاروبار کی کمپنی ہے، واشنگٹن ڈی سی میں واقع انٹرنیشنل سنٹر فارسیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس ٹربیونل سے رابطہ کیا اور بلوچستان حکومت کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کیا کیونکہ بلوچستان کی حکومت نے پروجیکٹ کی جگہ سے تانبا اورسونا نکالنے کی اجازت دینے سے انکارکردیا تھا- ٹی سی سی نے الزام لگایا تھا کہ صوبائی حکومت نے 1993 کے چاغی ہلزایکسپلوریشن جائنٹ وینچرایگریمنٹ (سی ایچ ای جے وی اے) کی خلاف ورزی کی ہے-

عدالت کے فیصلے کی وجہ سے بین الاقوامی ٹریبونل میں ٹی سی سی مقدمہ کمزورہوگیا ہے کیونکہ سی ایچ ای جے وی اے کو کالعدم قرار دیدیا گیا ہے- اسکا مطلب ہے کہ ٹی سی سی کو اب یہ حق حاصل نہیں ہے کہ 1993 کے معاہدے کے تحت بین الاقوامی عدالت میں دعویٰ دائر کر سکے-

بلوچستان کی حکومت نے پہلے اس علاقے میں بین الاقوامی مائننگ کمپنی بی ایچ پی بلیٹن کے ساتھ 1993 میں دستخط کئے تھے جس میں یہ طے پایا تھا کہ ایک مشترکہ پروجیکٹ شروع کیا جائیگا جس میں بلوچستان کا حصہ 25 فی صد اور بی ایچ پی کا حصہ 75 فیصد ہوگا اس سلسلے میں جون 2000 میں ایک تحریری دستاویز کے ذریعہ حقوق سے دست کشی کا ایک معاہدہ ہواتھا- دی آسٹریلین مینکور ریسورسز نے 2000 میں بی ایچ پی کے حصص خرید لئے تھے-

ٹی سی سی مینکور ریسورسز کی ایک ذیلی کمپنی ہے اور اسکا بی ایچ پی بلیٹن کے ساتھ ایک معاہدہ ہے- اپریل 2006 میں اس نے ایک تجدیدی معاہدہ کے ذریعہ سی ایچ ای جے وی اے کے تحت بی ایچ پی کے تمام حقوق اورذمہ داریاں حاصل کرلی تھیں- چنانچہ اب ریکوڈک ایک مشترکہ منصوبہ ہے جس میں اینٹوفگسٹا کا حصہ 5 .37 فیصد، بیرک گولڈ کا حصہ 5 .37 فیصد اور بلوچستان کا حصہ 25 فیصد ہے-

ان دونوں غیرملکی کمپنیوں نے آسٹریلین ٹی سی سی سے حصص خرید لئے ہیں جن کے پاس ریکوڈک کے علاقے میں مائننگ کا لائسنس ہے اور اس کے مطابق وہ 75 فیصد حصے کے مالک ہیں- ریکوڈک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں سونے اور تانبے کے بھاری ذخائر ہیں جو پوری دنیا کے ذخائر کے پانچویں حصے کے برابر ہیں-

سب سے پہلے معاہدہ بی ایچ پی سے کیا گیا تھا- لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب بی ایچ پی نے اپنے حصص ٹی سی سی کے ہاتھ فروخت کردئے اور پھر ٹی سی سی نے انہیں بیرک گولڈ اوراینٹو فگسٹا کو فروخت کردیا-

سوال یہ ہے کہ جب ریکوڈک پروجیکٹ بین الاقوامی شہرت یافتہ کمپنی بی ایچ پی بلیٹن نے ٹی سی سی کو منتقل کیا توپاکستانی حکمرانوں نے اسے مسترد کیوں نہیں کیا؟ اس کی وجہ 2000 میں اس وقت کی حکومت کی نااہلی اور ناقص کارکردگی ہے جس نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر نیا معاہدہ کرنے کی کوشش نہیں کی گوکہ بی ایچ پی اس پروجیکٹ کو شروع کرنے میں ناکام ہوگئی تھی-

اس معاملے کو نمٹانے میں بلوچستان حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اب یہ قضیہ بین الاقوامی ٹریبونل میں طول پکڑگیا ہے اور اس میں پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں- اس کی وجہ سے سونے کی کانکنی کو فروغ دینے میں مزید تاخیر ہوگئی ہے-

ٹی سی سی نے 2006 تک کھدائی اور فنی معلومات کے ضمن میں 400 ملین ڈالر صرف کئے اور رپورٹ کے مطابق اسی سال بیرک نے 130 ملین ڈالر کے حصص خریدے تھے- ٹی سی سی نے --جو 3.3 بلین ڈالرزکی سرمایہ کاری کرنے کیلئے تیار تھی-- بلوچستان حکومت کواس بات کی پیشکش کی کہ وہ کمپنی میں 25 فیصد ایکویٹی حصص خریدلے اور یہ کہ حکومت کو مزید آمدنی پر رایلٹی دیجائیگی-

2011 میں بلوچستان حکومت نے ٹی سی سی کی مائننگ لیز دینے کی درخوا ست مسترد کردی- وجہ یہ بتائی گئی کہ درخواست نامکمل ہے اور کمپنی نے معاہدے کی قانون شکنی کی ہے-

کمپنی نے بلوچستان حکومت سے مذاکرات کرنے کی کوششیں کیں اور جب اس میں ناکامی ہوئی تو اس نے بین الاقوامی ٹریبونل سے رجوع کیا تاکہ اس سرمایہ کاری کا معاوضہ حاصل کیا جائے جو اس پروجیکٹ پر اس نے کیا تھا-

بلوچستان کی حکومت کو ریکوڈک کے قضیے کو نمٹانے میں اپنی نااہلی کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑیگی- یہ صوبہ جو مالیاتی خسارے کا شکار ہے اس غیر معمولی معاشی ترقی سے محروم ہو گیا ہے جو چاغی کے ضلع میں عالمی سطح کی تانبے اور سونے کی کانوں کی وجه سے اسے حاصل ہوتی -

صوبہ کئی بلین کی غیر ملکی سرمایہ کاری سے بھی محروم ہوگیا ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت جبکہ بغاوت اور سرکشی کے شکار اس صوبہ میں غیر ملکی سرمایہ کار اپنی دلچسپی کھو بیٹھے ہیں-

یہ صوبہ تو اس قابل بھی نہیں تھا کہ بین الاقوامی ٹریبونل میں غیر ملکی مائننگ کمپنیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے مصارف بھی برداشت کر سکے- وفاقی حکومت نے بلوچستان کو 450 ملین روپے کی رقم دینے سے بھی انکار کر دیا، یہ رقم قانونی ماہرین کی فیس کی مد میں درکار تھی تاکہ وہ ٹی سی سی کی جانب سے بین الاقوامی ٹریبونل میں دائرکردہ مقدمہ کی پیروی کر سکیں-

حکومت کی نااہلی کی وجہ سے یہ پروجیکٹ متنازعہ بن گیا ہے اور جب تک ٹریبونل میں مقدمہ کی کارروائی مکمل نہ ہو کوئی تیسری پارٹی بھی اس پروجیکٹ میں سرمایہ کاری نہیں کرسکتی-

بلوچستان حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ ٹی سی سی کے ساتھ معاملات کو طے کرنے کیلئے مذاکرات کرتی تاکہ پروجیکٹ کے بارے میں صوبہ کے حقیقی تحفظات پر غور کیا جاتا لیکن حکومت نے تو کمپنی کے ساتھ مذاکرات کرنے کے تمام دروازے بند کردئے حتیٰ کہ اس کے افسروں سے ملنے سے بھی انکار کردیا- ایک غیر ملکی مائننگ کمپنی اور صوبائی حکومت کے درمیان تعطل کی وجہ سے ان غیر ملکی کمپنیوں کو منفی تاثر ملیگا جو ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہشمند ہیں-

کیا بلوچستان کی اگلی حکومت اپنے طور پر اس پروجیکٹ کو شروع کر سکتی ہے؟

کیا وہ ان مالیاتی مصارف کو برداشت کر سکتی ہے جو کانکنی کو ترقی دینے کیلئے درکار ہیں؟

ریکوڈک پروجیکٹ کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کئے بغیر مقامی وسائل سے بھی شروع کیا جا سکتا ہے- اس مقصد کیلئے چار سو مربع کلومیٹر اس علاقے کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنا ہوگا جس میں سے کچھ علاقہ تو غیر ملکی کمپنیوں کو لیز پر دیا جائیگا اور باقی بڑے حصے کو ترقی دینے کیلئے ملکی وسائل استعمال کئے جائیں- غیر ملکی فرموں کو زمین لیز پر دینے سے جو سرمایہ حاصل ہوگا اسکی مدد سے مالیاتی اور دیگر روزمرّہ کے مصارف برداشت کئے جاسکتےہیں -اس طرح ا س پروجیکٹ کوملکی وسائل سے مکمل کیا جا سکتا ہے-

ساتھ ہی یہ سوال پوچھنا بھی ضروری ہے کہ آیا بلوچستان چاغی کے تانبے کے ذخائر کو ملکی وسائل سے ترقی دینے میں سنجیدہ بھی ہے یا نہیں- اگر وہ سنجیدہ ہے تو پھر اس نے سینڈک تانبے اور سونے کے پروجیکٹ کی لیز میں پانچ سال کا اضافہ کیوں کیا جو اس نے 2002 میں چین کی سرکاری میٹالرجیکل کارپوریشن کے ساتھ کیا تھا جو گزشتہ سال اکتوبر میں ختم ہو چکی ہے-

اس نے چین سے کیوں سینڈک مائن پروجیکٹ واپس نہیں لیا جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اس حد سے آگے بڑھ کر کانکنی کر رہا ہے جس کی اسے اجازت ہے اور جس کے نتیجے میں کانکنی کے ذخائر کی مدت کار گھٹ جائیگی اورعلاقے کو کوئی معاشی فائدہ بھی نہیں پہنچےگا؟


فضل حیدر ایک ڈویلپمنٹ انالیسٹ اور "اکنامک ڈویلپمنٹ آف بلوچستان" کے مصنف ہیں

ترجمہ . سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

therealist19 Jan 30, 2013 12:53pm
Reblogged this on Dreamer.
انور امجد Jan 31, 2013 06:18am
اتنی بڑی بڑی کمپنیوں کے ریکوڈک پروجیکٹ میں شامل ہونے کے باوجود یہ کیسے فٹبال بن گیا ہے جو ایک کمپنی سے دوسری کے پاس جا رہا ہے۔ بی ایچ پی بیلیٹن دنیا کی سب سے بڑی مائننگ کمپنی ہے۔ بیرک گولڈ کاپوریشن سب سے بڑی گولڈ مائننگ کمپنی ہے۔ 1993 میں ریکوڈک کا معاہدہ اسٹریلوی کمپنی بی ایچ پی کے ساتھ ہوا ہوگا۔ کیونکہ بی ایچ پی اور اینگلوڈچ کمپنی بیلیٹن میں مرجر جون 2001 میں ہوا اور بی ایچ پی نے 2000 میں یہ پروجیکٹ منکور ریسورسیز کے حوالے کر دیا تھا جس نے ذیلی کمپنی ٹیتھیان کاپر کمپنی بنائی۔ آپ نے صیحیح کہا ہے کہ جب بی ایچ پی نے سن 2000 میں حصص منکور کو بیچے تو اس وقت بلوچستان حکومت کو اس معاہدے کو ریویو کرنا چاہیے تھا یا نیا معاہدہ کرتی۔ یقینا بی ایچ پی نے حکومت بلوچستان سے اجازت لے کر سودا کیا ہوگا۔ جو کچھ ہوا وہ تو گزر چکا اب مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ کینیڈا کی بیرک گولڈ اور چلی کی اینٹوفگستا دونوں ہی بڑی اور اچھی کمپنیاں ہیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ حکومت ان سے عدالت کے باہر یہ معاملہ طے کرے۔ یقینا وہ بھی اس پروجیکٹ کو جلد شروع کرنے میں دلچسپی رکھتی ہونگی۔ اب نئے پراجیکٹس کے لئے پاکستان کو ٹرانسفر آف ٹیکنولوجی کے طرز پر معاہدہ کرنا چاہیے جس میں باہر کی کمپنی پراجیکٹ سیٹ اپ کرنے اور کچھ عرصہ چلانے میں مدد دے پھر پاکستان کے حوالے کردے۔