فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

اس کا مالک آج صبح ہی اسے کھونٹے سے باندھ کر چلا گیا تھا اور وہ سخت غصے میں تھا. در اصل یہ غصہ صر ف مالک ہی پر نہیں تھا بلکہ الیکشن کمیشن پر تھا. بھئی حد ہو گئی تعصب اور تنگ نظری کی یعنی جو سر نیہو ڑ ا کر کام میں جتا رہے اسے کوئی خا طر ہی میں نہیں لا تا!

یہاں تو چینی کہا وت کا چلن ہے کہ ایک ہاتھ سے کام کرو اور دوسرے سے ڈھول پیٹو ورنہ کوئی آپ کو اہمیت ہی نہیں دیتا. خیر ڈھول پیٹنے کا تو اس بیچارے کے پاس وقت نہیں تھا اور نہ یہ اس کے مزاج سے مطا بقت رکھتا تھا کہ ہر وقت اپنے کام کا ڈ نکا بجاتا پھرے. اسے کونسا میڈیا پرسنز کی طرح ریٹنگز لا کر دکھانا ہوتی ہیں. نہ ہی اسے ترقی کر نے کے لیے کوئی خوشامد کرنا ہوتی ہے. نہ سیاسی لیڈ روں کی طرح بیان بازی کر نا ہوتی ہے. نہ "چیزہ" لینے والوں کی طرح کونوں میں گھس کرکھسر پھسر کرنا ہو تی ہے.

اپنی حیثیت سے زیادہ بوجھ ا ٹھا کر بھی وہ شکوہ نہیں کرتا کیونکہ اسے اپنے مالک کے فا قه زد ہ بچوں کا خیا ل ستائے رکھتا ہے. مرزا غالب نے اسی کے لیے کہا تھا؛

نہ ستائش کی تمّنا نہ صلے کی پروا گر نہیں مرے اشعار میں معانی نہ سہی

اسے یہی قلق تھا کہ اگر آج وہ فارغ تھا تو اسے الیکشن کمیشن کے دفتر جانے کی ہی اجازت مل جاتی اور وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کروا آتا کیونکہ اسے پتہ چلا تھا کہ الیکشن کمیشن نے گھوڑ ے کو تو انتخابی علامت کے طور پر الاٹ کرنا ہے لیکن گدھے پر یہ ا عتر ض کیا ہے کہ اس کی شکل گھوڑے جیسی ہے لہٰذا ووٹرز کنفیوز ہوجائیں گے.

اس کا خیال تھا کہ عوام کے ذہنوں میں اس کی شبیہ گھوڑے کی بہ نسبت زیادہ محفوظ ہےاور اس کے پاس اس کی بہت معقول دلیل بھی ہے. اس ملک کا سروے کروایا جائے تو پتہ چلے گا کہ نوے فیصد لوگ گالی بکتے ہیں اور سب سے مقبول عا م گالی ہے، "گد ھے کا بچہ".

اب ظا ہر ہے گالی بکنے والا اپنے باپ کے امیج پر تو دوسرے کو یہ نہیں کہتا لہٰذا یہ ثا بت ہے کہ گدھے کا ایک حقیقی تصّور مو جود ہے اور گالی سننے کے بعد کینہ رکھنا اس امر کا غماض ہے کہ گدھا ایک معروف "شخصیّت" ہے جو نامی گرامی اینکرز کی طرح کسی تعا رف کی محتا ج نہیں. چلیے مان لیا کہ اچھے لوگ گا لیاں نہیں بکتے لہٰذا یہ کوئی معیا ر نہیں ہے اہلیت جانچنے کا.

عرض یہ ہے کہ جب سے اوباما دوبارہ صدر بنا ہے گدھےکے حا سدین بہت بڑھ گئے ہیں ورنہ پاکستان سے باہر اس پر رشک کر نے والے بھی بہت ہیں. گدھا اگر گھمنڈ ی ہوتا تو اس کی یہاں بھی بہت عزت ہوتی. وہ تو کبھی اس نے غرور نہیں کیا ورنہ کون نہیں جا نتا کہ دجا ل نے گدھے ہی پر بیٹھ کر آنا ہے.

کسے نہیں معلوم کہ جارج آرویل کے اینیمل فارم میں گدھے کا کردار کتنے خاموش اور محنتی "انسان" کا ہے. کسے نہیں علم کہ گدھے کے بچے کا انسانوں کے جما لیاتی شعور میں کتنا اہم مقا م ہے. گھوڑے کی تو کتوں کی طرح بہت سی قسمیں ہیں. بہت سے رنگ ہیں لیکن گدھا ازل سے اپنی اصل حا لت میں موجود ہے. گھوڑ ے تو بیچ جنگ میں بدک جاتے ہیں، اپنے سرپٹ دوڑ نے پر نازا ں ناچتے پھرتے ہیں لیکن گدھے ہیں جو یکسو ئی سے اپنا کام کرتے ہیں.

آ فرین ہے الیکشن کمیشن پر جو یہ سمجھتا ہے کہ گھوڑوں اور گدھوں کی شکلیں ایک سی ہوتی ہیں. آ خر انسانوں کی شکلیں بھی تو ایک جیسی ہی ہوتی ہیں. دو کان جیسے بھوکے آدمی کے گھر چھابے لٹک رہے ہوتے ہیں، باہر کو نکلی ہوئی نا ک جیسے کوٹ ٹا نگنے والی کھو نٹی ہو. اندر کو دھنسی ہوئی آنکھیں جیسے کسی مشین کے بٹن ہوں اور باہر کو نکلے ہوے ڈیلے جیسے الو خواب دیکھ رہا ہو.

اس نے الله کا شکر ادا کیا کہ وہ ایک گدھا ہے. تعصب سے پاک، فکر دنیا سے بے پروا، فطرت کے حسن میں غلطاں، حسینوں کی کج ادائیو ں پر ہنستا، بم اور بارود کے خوف سے عاری وہ تو اپنی ہی دنیا میں مست رہتا ہے. کم کھا نے کا شکوہ، بوجھ اٹھانے کی عا دت، مار سہنے کا حوصلہ اور کام کرنے کی دھن لیے وہ بڑ ے بڑ ے ٹرکوں اور گاڑیوں کے مقا بلے میں سڑ کوں پر سرگرداں رہتا ہے.

لیکن آپ شاید گدھے کی ضد سے واقف نہیں اسی لیے الیکشن کمیشن نے اس کے جذبات کا خیال کیے بغیر حکمنامہ جاری کر دیا کہ گدھے کو انتخابی علامت نہیں بنایا جا سکتا.

فرض کریں اگر گدھے الیکشن لڑ رہے ہوں اور انسان کو انتخابی نشان رکھ لیا جا ئے تو بھی یہ مسئلہ پیدا ہونے کا امکان ہے لیکن گدھوں کی کوئی تنظیم اتنی عجلت میں ایسا فیصلہ ہر گز نہ کرتی. اس نے سوچا ایک پریس کانفرنس کرلی جائے یا پھر کوئی احتجاج لیکن پھر اسے خیال آیا کہ علامہ صاحب کی جو گت بنی ہے ایسے مہماتی کام سے پرہیز ہی کیا جائے. پھر آخر الیکشن کمیشن کو سبق کیسے سکھایا جا ئے! اس نے سوچا فخرو بھا ئی کے گھر کے سامنے زور زور سے ڈھچھکوں ڈھچھکوں کیا جائے تاکہ وہ زچ ہوں اور میڈیا شور مچائے کہ فخرو بھا ئی بوڑھے ہوگئے ہیں لیکن پھر اس نے سوچا کہ اس میں اور دوسرں میں کیا فرق رہ جائے گا جو انتحابی عمل ہی کو سبو تا ژ کرنا چاہتے ہیں.

پھر اس نے سوچا کہ الیکشن کمیشن پر مقد مہ کر دیا جا ئے لیکن وہ حق دعو ی ثا بت نہ کر سکا تو کسی کو منہ دکھانے کے قا بل نہیں رہے گا لہذا ایک نجیب الطرفین گدھے کی طرح اپنی قسمت پر شاکر رہنے میں ہی عافیت جانی.

تبصرے (2) بند ہیں

سلطان خان Feb 23, 2013 10:09am
بہت خوبصورت کالم
ابن آدم Feb 23, 2013 08:42pm
بہت ہی عمدہ لکھا ہے ذیشا ن حسین ..سلامت رہیں