سابق وزیر، اعلیٰ بلوچستان ، سردار اختر مینگل اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ۔ فائل تصویر
سابق وزیر، اعلیٰ بلوچستان ، سردار اختر مینگل اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے ہیں۔ —. فائل فوٹو

علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ کے کمانڈر ڈاکٹر اللہ نذر نے کہا ہے کہ ان کے نزدیک گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات کی کوئی حیثیت نہیں۔

ڈان سے خصوصی گفتگو میں نذر کے مطابق انتخابات مرکزی حکومت کا ایک حربہ ہیں جو بلوچ عوام کی آواز اور ان کے مطالبات کو دبانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کے رہنما اختر مینگل آج بروز پیر ، دوپہر کو پاکستان لوٹ چکے ہیں۔

ان پر علیحدگی پسند بلوچوں اور انتہا پسند قوم پرستوں کی طرف سے شدید دباؤ ہوگا کہ وہ آئندہ انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کریں۔

ڈاکٹر نذر کا کہنا تھا کہ “اگر اختر مینگل ان انتخابات میں حصہ لیتے ہیں، جو درحقیقت ایک دھوکہ ہیں تو اس کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ انہوں نے ہزاروں بلوچوں کی ہلاکتوں کی ذمہ داراسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتہ کرلیا ہے۔”

اختر مینگل چھ ماہ کے بعد وطن واپس لوٹے ہیں۔ چھ ماہ پہلے انہوں نے سپریم کورٹ سے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی 'مارو اور پھینکو' کی پالیسی سے نجات دلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

ان کی پارٹی کی مرکزی کمیٹی منگل کو ایک اجلاس میں آئندہ انتخابات کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرے گی۔

پارٹی کے قائم مقام صدر جہانزیب جمال دینی کے مطابق جو بھی فیصلہ ہوگا وہ اچھا ہی ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ“ہماری پارٹی الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے اور ہم نے ہمیشہ جمہوریت کے لیے جدوجہد کی ہے۔”

جمال دینی نے ڈان سے کہا “یقیناً یہ ممکن ہے کہ ہماری پارٹی منگل کو ایک بالکل مختلف فیصلہ کرے۔"

"ہماری پریشانی بلوچستان میں سیکیورٹی اور ریاستی مفادات سے متعلق ہے اور اس کے اثرات لامحالہ انتخابات پر بھی پڑیں گے، لیکن تاحال اس تصور کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ہم انتخابات کا بائیکاٹ کرنے جارہے ہیں۔”

تشدد کا سلسلہ جاری ہے

اختر مینگل اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے دیگر لوگوں کے مطابق ان کے پاکستان کے پچھلے  دورے میں کچھ تبدیلی آئی تھی۔

انہوں نے پچھلے ہفتے ہی سپریم کورٹ کے نام ایک کھلے خط میں اعداد وشمار دیئے تھے کہ” گزشتہ ستمبر میں اُن کے عدالت میں پیش ہونے سے لے کر اب تک “چھ مسخ شدہ لاشیں، ستر افراد کی ٹارگٹ ہلاکتیں،اور سو افراد لاپتہ" ہوچکے ہیں۔

انہوں نے مذکورہ خط میں لکھا تھا کہ "لاپتہ افراد کے لواحقین سخت پریشانی میں ہیں، اور ان کی امیدیں پاکستان کے نظام انصاف کو دیکھتے ہوئے ختم ہوچکی ہیں۔”

اختر مینگل نے سوائے 1970ء کے انتخابات کے باقی تمام انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا تھا۔

“اسٹیبلشمنٹ اور اس کے حواریوں نے ہمیشہ اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کی کوشش کی”

مینگل کے مطابق حالیہ دنوں میں مصنوعی طور پر پیدا شدہ بحران کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو دُہرایا جائے گا۔

گزشتہ سال ستمبر میں اپنے چار روزہ دورے کے اختتام پر ڈان کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ہمارا آخری مؤقف ہے کہ اگر انہوں نے اس صورتحال میں جبکہ بلوچستان ایک جنگی خطہ بن گیا ہےالیکشن کروانے کی کوشش کی تو  الیکشن سیلکشن بن جائے گا ۔

“میں اُن پر یقین نہیں کرسکتا جو ہمارے قاتل ہیں، مجھے ان اداروں سے ذرا بھی توقعات نہیں ہیں جنہوں نے ہمارے نوجوانوں کا خون بہایا، ہماری ماؤں اور بہنوں کو آنسو بہانے پر مجبور کیا۔"

"میں اپنے موقف میں تبدیلی کے لیے کچھ بھی قبول نہیں کرسکتا، کبھی نہیں۔” مینگل نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا۔

مینگل نے مختصر الفاظ میں واضح کیا کہ اگر الیکشن کے وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آتی تو "ہم پھر ہر چیز کا بائیکاٹ کریں گے"۔

انہوں نے اپنے کھلے خط میں سیکیورٹی اسٹیبلیشمنٹ، اسلام آباد اور کوئٹہ کی حکومتوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

انہوں نے چھ ماہ قبل اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کی پارٹی آئندہ انتخابات میں حصہ لے گی؟ ان پر تنقید کرنے والوں کے مطابق اگر وہ الیکشن میں حصہ لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے اس ریاست کی رِٹ کو تسلیم کرلیا ہے، جسے وہ بلوچوں کا قاتل قرار دیتے ہیں۔

قانونی طور پر بلاجواز الیکشن

بارہ مارچ کو ایک علیحدگی پسند گوریلا تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے کوئٹہ میں ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو نشانہ بنا کر قتل کردیا تھا۔

بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان نے کہا کہ “ہم پاکستان کے تحت بلوچستان میں ہونے والے الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے۔”

نذر کی بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ ریپبلیکن آرمی پہلے ہی یہ اعلان کرچکی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات کے انعقاد میں رکاوٹ ڈالیں گے، جسے وہ غیرقانونی الیکشن کہتے ہیں۔

بلوچستان کی حکومت پہلے ہی یہ اعلان کرچکی ہے کہ سات اضلاع حملوں کا شکار ہیں۔

ان اضلاع میں جنوبی بلوچستان کے شہروں میں گوادر، تربت، آوران اور پنجگور، جبکہ  شمالی بلوچستان میں خضدار جو کوئٹہ سے تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور ڈیرہ بگٹی شامل ہیں۔

لیکن کوئٹہ میں الیکشن کمشنر کے اوپر ہونے والا یہ حملہ گوریلا طرز کی عسکریت پسندی کو ظاہر کررہا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پورے صوبے میں الیکشن کے دوران اس طرح کے حملے ہوسکتے ہیں۔

انتہا پسند قوم پرست اور علیحدگی پسند خاص طور پر بلوچستان کی سیاسی جماعتوں پر تنقید کرتی رہی ہیں کہ “نیشنل ازم کی زبان بولنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ پاکستان کا حصہ بنے رہنا چاہتے ہیں۔”

نیشنل پارٹی نے اپنے سیاسی کارکنوں پرعلیحدگی پسندوں کے حملوں کی مذمّت کی ہے۔

ان میں سے بہت سے خضدار میں ان حملوں کا شکار ہوئے، اور بی این پی -ایم بھی اسی طرح کے حملوں کا نشانہ بن چکی ہے۔

نذر کا کہنا ہے کہ “اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے نام پر لوگوں کو مار رہی ہے، لیکن نام نہاد قوم پرست بلوچستان کے نام یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔”

بلوچوں کے دلوں میں مینگل کے لیے نرم گوشہ موجود ہے، اور اس میں کوئی شبہ نہیں لیکن اگر اختر مینگل یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ آئندہ عام انتخابات میں حصہ لیں گے تو انہیں سابق قائم مقام وزیر اعلیٰ اور وفاقی وزیر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل کا تعاون حاصل رہے گا۔

نذر کا کہنا ہے کہ “اس بات سے سب ہی واقف ہیں کہ شفیق مینگل آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلجنس کا ایجنٹ ہے اور وہ بلوچوں کی ہلاکتوں کا بھی ذمہ دار ہے۔ ”

“ان انتخابات میں حصہ لینے کا مطلب یہ ہے کہ غیرقانونی الیکشن کو قانونی جواز دے دیا جائے، اس وقت ضرورت ہے کہ ہم متحد ہوکر پاکستانی ریاست کے خلاف کھڑے ہوں۔”

دی بلوچ ہال کے نام سے ایک آن لائن میگزین جس پر پابندی عائد ہے، کے ایڈیٹر ملک سراج کا کہنا ہے کہ“اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ سیاستدان جو پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں، جن کے پاس بھاری بھرکم فنڈ بھی موجود ہے، مثلاً مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی یا پھر بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی جو اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر ہیں،ان کے پاس اتنے فنڈ موجود ہیں کہ وہ اس طرح کے حملوں سے اپنا تحفظ کرسکیں۔"

"بی این پی-ایم اور این پی جیسی سیاسی جماعتیں جو الیکشن جیتنے کے قابل لوگوں سے زیادہ اپنے سیاسی کارکنوں پر انحصار کرتی ہیں، بڑی پارٹیوں کا مقابلہ نہیں کرسکیں گی۔”

جب نذر سے پوچھا گیا کہ کیا بی ایل ایف ایسی منصوبہ بندی کررہی ہے کہ ان لوگوں پر حملے کرے گی جو الیکشن میں حصہ لیں گے، یا پھر ان لوگوں کو نشانہ بنائے گی جو ان الیکشن کے انتظامات سنبھالیں گے۔ تو نذر نے کہا “ووٹنگ کا بہت کم ٹرن آؤٹ یہ ثابت کردے گا کہ بلوچ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ انتخابات محض ڈھونگ ہیں۔”

نذر نے مزید کہا کہ“بلوچستان میں پاکستان کہیں بھی موجود نہیں ہے، ڈاکٹرز ، اساتذہ  غرضیکہ بلوچوں کی بڑی تعداد ان الیکشن میں ووٹ نہیں ڈالے گی۔"

"انہوں نے ہمارے لوگوں، ہماری ثقافت، ہماری زبان اور ہماری شناخت کا قتل کیا ہے۔ اگر مینگل آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتے ہیں ہیں تو وہ بھی پاکستان کے جرائم میں شریک سمجھے جائیں گے۔”

تبصرے (1) بند ہیں

انور امجد Mar 26, 2013 04:49pm
اس وقت بلوچستان میں جوش کی نہیں بلکہ ہوش کی ضرورت ہے۔ مضبوط جمہویت سب سے اچّھا حل ہے۔ کیونکہ عوام سب سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ بندوق کسی مسئلہ کا حل نہیں اور تقسیم در تقسیم سے بھی کوئی پائدار حل نہیں نکلتا خاص کر کے جب بنیاد کسی سے نفرت ہو۔ وقتی جوش بڑی جلدی ٹھنڈا پڑ جاتا ہے جب سچائوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صرف محبّت سے حاصل کیا ہوا ثمر لا زوال ہوتا ہے۔ پاکستان میں قوم پرست سیاست اس لئے کچھ حاصل نہیں کر پاتی کیونکہ ان کی ساری سیاست دوسروں قوموں سے نفرت پر انحصار کرتی ہے بجائے اپنی قوم سے محبّت پر۔ ذرا غور کریں کہ ان قوم پرستوں نے اپنی قوم کی بھلائی کے لئے کیا کیا سوائے حکومت سے تصادم کے جن میں زیادہ نقصان خود ان کا ہی ہوتا ہے۔ ان کے اپنے علاقوں میں تعلیمی ادارے اور کاروبار تباہ ہورہے ہے اور لوگ نقل مکانی کر کے دربدر ہورہے ہیں۔