بھان متی کا کنبہ
پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر نظر دوڑائی جائے تو ایک ہی مثال زہن میں آتی ہے، بھان متی نے کنبہ جوڑا، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، لیکن اس مثال میں ایک جو کمی رہ گئی تھی اور جو تھوڑی بہت ترمیم کی ضرورت تھی وہ میں آپ کو بتائے دیتا ہوں؛
اس کنبہ میں استعمال ہونے والی اینٹ اور روڑا کہیں اور کا نہیں بلکہ ایک ہی پہاڑ کی پیداوار ہے یعنی پاکستان کا وہ طبقہ اشرافیہ جو اقتدار کے ایوانوں میں روپ بدل بدل کر آ جاتے ہیں، بلکہ روپ بدلنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی صرف پارٹی بدلنے سے ہی کام چل جاتا ہے.
پہلے جو 'چودھری شجاعت' کے گن گاتا تھا وہ اب 'میاں صاحب' کا نام جپ رہا ہے، جو لوگ 'تیر' سے گھائل ہوتے تھے وہ 'بلے' کے متوالے ہیں غرضیکہ اس سیاسی منڈی میں سب کچھ بکتا ہے بس قیمت سہی لگانے والا ہو.
اقتدار کی اس 'میوزیکل چیئر' کے کھیل میں پورا پورا خاندان شامل ہوتا ہے. اگر بھانجا 'ن لیگ' میں ہے تو ماموں 'پی پی پی' کا اور جب سے تحریک انصاف نے اس منڈی میں دکان ڈالی ہے سمجھئے کہ 'مال' کی چاندی ہو گئی ہے، بڑھ بڑھ کر بولیاں لگ رہی ہیں.
خیر ٹکٹوں کی تقسیم اس راؤنڈ کے اختتام کا اعلان ٹھہرا، اب اگلا راؤنڈ شروع ہونے کو ہے جس میں یہ پہلوان ایک دوسرے کو چت کرنے کے لئے میدان میں اتریں گے اور 11 مئی کا سورج جب غروب ہو گا تو اگلے دن جمہوریت کی پو پھٹے گی!
سوال یہ ہے کہ؛
1. کیا اگلی جمہوریت کو عوام کے مفاد کے لئے استعمال کیا جائے گا؟
2. کیا پاکستان جن جوہری تبدیلیوں کا محتاج ہے وہ اسکا مقدر بنیں گی یا پھر حیلے بہانوں سے کام چلایا جائے گا؟
3. دہشت گردی اور دگرگوں معاشی صورتحال کی بہتری کا 'فارمولہ' کس کے پاس ہے؟
برصغیر کے ملکوں میں رائج جمہوریتوں پر نظر دوڑائے تو چند ایک تبدیلیوں کے ساتھ ایسی ہی صورتحال نظر اتی ہے، جس میں ایک طبقہ عوامی معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر کبھی ایک پارٹی اور کبھی دوسری پارٹی کے ٹکٹ پر عوام کی 'خدمت' کر رہے ہیں لیکن جو فرق وہاں کے عوامی رویہ میں پایا جاتا ہے اس مقام تک شائد ہمارا شعور نہیں پہنچا کیونکہ ہماری جمہوریت ووٹ ڈالنے پر ختم ہو جاتی ہے جبکہ اصل جمہوری نظام ووٹ ڈالنے اور اپنے نمائندے کے انتخاب کے بعد شروع ہوتی ہے لیکن ہمیں اس شعور کو پروان چڑھانے کا موقعہ ہی نہیں ملا، خیر اگر جمہوری نظام کو بغیر چھٹی کے چلنے دیا گیا تو امید ہے کہ اس عوامی مزاج میں کافی افاقہ نظر آئے گا.
میڈیا اور سماج میں پلنے والے عوامی شعور کا ایک مظاہرہ آپ کی نظروں سے بھی گزرا ہو گا، جس کے تحت سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کی ہر ممکن چھان پھٹک کرنے کے بعد ہی اپنا ٹکٹ جاری کر رہی ہیں، کہیں حلف لئے جا رہے ہیں تو کہیں عوام سے 'چھ' وعدے کئے جا رہے ہیں!
سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہو گی اور عوام کو بھی اس کام میں اپنا حصّہ ڈالنا ہو گا بذریعہ ووٹ اور اسکے بعد اپنے نمائندے پر زور ڈالنے اور اسکے احتساب کے زریعے!
پاکستان میں رائج جمہوریت میں اصلاحات عوامی شعور کے بلند ہونے میں ہی ہے، ان اصلاحات کے لئے مثبت بحث کا آغاز پاکستان کی پڑھی لکھی مڈل کلاس کی ذمہ داری ہے. اس بھان متی کے کنبہ میں دراڑ ڈالنے کی کنجی بھی عوام کے ہی ہاتھ میں ہے، دیر صرف اسکے استعمال میں ہے.
سیاسی جماعتوں کو بھی چاہئے کہ وہ قوم کی فلاح اور بہبود کو اول اہمیت دیں اور اور اپنے 'حلوے مانڈے' پر ہاتھ 'ہولا' رکھیں کہیں ایسا نہ ہو کہ 'نظام داروں' کی بدولت 'نظام' ہی اتنا بدنام ہو جائے کہ پھر روٹھے ہوے عوام منائے نہ مانیں!
علی منیر میڈیا سے منسلک قلم کے ایک مزدور ہیں اور خود کو لکھاری کہلانے سے کتراتے ہیں۔













لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں