ایک ایسا شو جس نے بے مثال تاریخ رقم کی۔ بیس سوالوں پر مشتمل اس شو نے اتنے بڑے پیمانے پر عوامی مقبولیت حاصل کی کہ اردو لغت میں لفظ 'کسوٹی' کے معنی ہی بدل گئے۔

کسوٹی کی شروعات ریڈیو پاکستان سے ہوئی جہاں تین خوبصورت ذہن کے حامل دوست ایک دوسرے سے کسی بھی موضوع پر بیس سوالات پوچھتے۔

'کسوٹی' ہمارے قومی ورثے کا حصہ ہے، اور عبیداللہ بیگ  بھی ، جو بائیس جون سنہ دو ہزار بارہ کو خالقِ حقیقی سے جاملے۔

بیگ کی ذہانت اور صلاحیتیں کئی طرح سے واضح ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عبیداللہ نے باقاعدہ کوئی اعلی تعلیم حاصل نہیں بلکہ وہ اترپردیش کے ایک مکتب سے فارغ التحصیل تھے۔ لیکن زیادہ تر لوگ ان کی علمیت سے اس قدر متاثر تھے کہ وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں کہ وہ اسکالر نہیں تھے۔

یہ کافی دلچسپ بات ہے کہ ایک آدمی اپنے ذہن کا بہترین استعمال کرتے ہوئے بےشمار موضوعات پر مکمل دسترس رکھ سکتا ہو۔ ان کو جنگلی حیاتیات، دیو مالا ، بشریات، سائنسی دریافتوں اور دنیا کی اہم شخصیات جیسے موضوعات پرمہارت حاصل تھی۔

وہ ایک مصنف ، تخلیقی دستاویزی فلم ساز اور پاکستانی دانشور طبقے کے معروف چہروں میں سے ایک تھے۔

اور حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے یہ مقام ایک ایسے دور میں حاصل کیا جب سرچ انجنز وجود میں ہی نہیں آئے تھے۔ وہ بہت آرام سے گوگل کو شرمندہ کر سکتے تھے ۔

لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ بیگ نے یہ سب کچھ عاجزی، غیر متنازعہ نفاست، غیر مبہم تقریر ، اپنی ملنسار مسکراہٹ کے ساتھ نہایت ہی خوشگوار انداز میں کیا۔

یہ کوئی اچھنبے کی بات نہ تھی کہ وہ پاکستان کی کسی بھی شاہراہ سے گزرتے اور لوگ انہیں پہچان نہ پاتے۔

ان کی فنکار ساتھی رومانہ حسین کا کہنا ہے کہ: 'ہم انہیں بطور زندہ انسائیکلوپیڈیا جانتے تھے۔ قدرت، ماحول اور ورثہ ان کی دوسری محبت تھے۔ کثیر الجہت موضوعات پر ان کی معلومات بے پناہ تھیں اور یہی بات مجھے ہمیشہ متاثر کرتی تھی ۔ نہایت نرم مزاج  بیگ بہت صبر و تحمل سے دوسروں کی بات سنتے تھے ۔ میرے خیال میں وہ اپنی عاجزی کی وجہ سے ہی عوام الناس سے جڑے ہوئے تھے'۔

کسوٹی کا پوری قوم پر بھرپور اور دیرپا اثر رہا۔ یہ ایک ایسا پروگرام تھا جو ذہنی تحریک پیدا کرتا تھا لیکن پھر بھی بڑے پیمانے پر مقبول ہوا۔

عموماً ذرائع ابلاغ میں معلوماتی پروگراموں کا معیار کم ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام اس میں دلچسپی بھی نہیں لیتی۔ ذہنی آزمائش کے پروگرام ایک عام آدمی کو غیر دلچسپ لگتے ہیں۔

عموماً مفکرین حضرات اپنے ہم خیال لوگوں سے اشتراک کرنا پسند کرتے ہیں اور انہیں عام آدمی کی سطح پر جاکر گفتگو کرنے کا کوئی خاص شوق بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح عام آدمی بھی دانشور طبقہ سے دور رہتا ہے جس کے نتیجے میں ایک خلیج پیدا ہو جاتی ہے۔

لیکن عبیداللہ بیگ، افتخار عارف اور قریش پور نے انیس سو سڑسٹھ میں شروع ہونے والے اس پروگرام کے ذریعے سوچنے کے انداز میں تبدیلی پیدا کر دی۔ انہوں نے معلومات کے حصول کو نہ صرف رواج بنا دیا۔بلکہ تاریخ ، ادب اور ان جیسے دوسرے مضامین کو دلچسپ بھی بنایا۔

ایک ایسے ملک میں جہاں تعلیم کا تناسب ہمیشہ ہی کم رہا ہو وہاں کسوٹی جیسے پروگرام نے ایک عام آدمی کو بھی نہ صرف علم فراہم کیا بلکہ انہیں سوچنے ہر بھی مجبور کیا۔

معروف صحافی غازی صلاح الدین،  مرحوم بیگ کے دوست تھے۔ا نہوں نے نوّے کی دہائی میں کسوٹی کے دوسرے مرحلے میں میزبانی کے فرائض سر انجام دیے تھے ۔

صلاح الدین کا خیال ہے کہ ماضی میں بے انتہا مقبول ہونے والا کسوٹی پروگرام آج ناکام ہوجاتا۔

ان کا کہنا ہے کہ 'اب لوگ زیادہ دیر تک ایک چیز پر متوجہ نہیں رہ سکتے۔ ان کی  دلچسپی کا مرکز اب کھیل، ٹیکنالوجی اور فیشن ہے۔ آگر کسوٹی جیسا پروگرام آج شروع کیا جائے تو نہ صرف سوالات کی نوعیت مختلف ہوگی بلکہ حاضرین بھی مختلف ہوں گے۔

صلاح الدین کے الفاظ کی سچائی پر غور کرنے سے بیگ کے جانے کا غم مزید گہرا ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ملک میں حقیقی بحران دانشورانہ اور اخلاقی اقتدار کی گراوٹ ہے۔ پاکستان میں کتاب پڑھنے والوں کی بتدریج کمی کے بعد اب بیگ جیسے رول ماڈل کے دوبارہ آنے کے امکانات معدوم ہوچکے ہیں۔

صلاح الدین کے مطابق ہر آنے والی نسل میں مفکرین کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے اور ان حالات میں بیگ کی پرچھائی علمی دنیا پر ہمیشہ قائم رہے گی۔

وہ  ایک ایسے آدمی تھے جنہوں نے ثابت کرکے دکھایا کہ ایک دانشور ہونے کے لیئے رسمی اعلی تعلیم کے بغیر بھی زہنی شعور کی بلندیوں کو چھوا جا سکتا ہے اور آگر کسی میں لگن ہوتو وہ علم کا ذخیرہ جمع کرسکتا ہے۔ بیگ نے کئی مثالیں قائم کی ہیں، ایسی مثالیں جنہیں اپنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ سوچنے سمجھنے اور علم حاصل کرنے والوں پر مشتمل اچھا معاشرہ وجود میں آسکے۔

جب میں نے صلاح الدین سے یہ پوچھا کہ آج کل کے دور میں مطالعے کا شوق کم کیوں ہوگیا ہے تو انھوں نے انٹرنیٹ کو موردِالزام ٹھہرانے سے انکار کرتے ہوئے کہا:' دنیا بھر میں لوگوں کی انٹرنیٹ تک رسائی پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ ٹوئٹر اور فیس بک استعمال کرتے ہیں لیکن پھر بھی مطالعہ جاری رکھتے ہیں۔ ایمیزون اور کنڈل کے آ جانے سے کتب خانے خطرے میں تو ہوسکتے ہیں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی سطح پر پہلے سے کئی زیادہ کتابیں لکھی اور پڑھی جارہی ہیں'۔

ان کے خیال میں پاکستان میں مطالعے میں کمی کی وجہ ناخواندگی، اردو اور انگریزی زبانوں سے لاعلمی اور دینی تعلیمات کا غلط مطلب اخذ کرنا  ہے۔

عبیداللہ بیگ جیسے شخص کو کھودینے سے پاکستان نے ایک خوبصورت ذہن گنوا دیا ہے۔ صلاح الدین کے الفاظ میں عبید اللہ کی موت 'علامتی' ہے- ایک قوم کے دانشوارانہ زوال کی علامت ۔


فرح ناز زاہدی معظم http://chaaidaani.wordpress.com/

تبصرے (0) بند ہیں