الیکشن کمیشن آف پاکستان —فائل فوٹو

اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ مذہبی یا فرقہ ورانہ بنیادوں پر لوگوں کو ووٹ دینے کی ترغیب نہ دیں۔ الیکشن کمیشن کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اس طرز عمل کو جرم قرار دے دیا گیا ہے۔

11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات کے قواعد وضوابط سے متعلق الیکشن کمیشن کے اہلکار نے اتوار کے دن  میڈیا کو دی جانے والی ایک بریفنگ میں کہا کہ سیاسی جماعتیں، ان کے امیدوار اور حمایتی کسی بھی شخص کے خلاف مذہب، فرقے، جنس یا ذات پات کی بنیاد پر مہم نہ چلائیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایسی اشتعال انگیز تقریروں سے بھی گریز کریں جو کسی جنس، برادری یا لسانی گروہ کے درمیان کسی تنازع کو جنم دے سکتی ہو۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے امیدوار آئین کے مطابق عوام کی آزادی کا احترام اور ان کے حقوق کی پاسداری کریں۔

الیکشن کمیشن کے اہلکار نے تمام جماعتوں کو متنبہ کیا کہ وہ الیکشن کے مقرر کردہ قوانین کے تحت ایسی تمام سرگرمیوں سے گریز کریں جنہیں جرم قرار دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ووٹرز کو رشوت دینے، دھمکیاں دینے، پولنگ اسٹیشن کے 400 گز کے اندر کیمپ لگانے اور پولنگ شروع ہونے سے 48 گھنٹے کے اندر کسی بھی قسم کے عوامی جلسے پر پابندی اور اسے جرم تصور کیا جائے گا۔

سیاسی جماعتیں، امیدوار اور ان کے حامی کسی بھی پارٹی یا رہنما کے خلاف جان بوجھ کر غلط خبریں پھیلانے یا بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں۔

عوامی جلسے جلسوں اور الیکشن کے دن کسی بھی قسم کے ہتھیاروں کی نمائش پر مکمل پابندی ہو گی اور عوامی مقامات پولنگ اسٹیشن کے قریب ہوائی فائرنگ، کریکر یا آتش گیر دھماکہ خیز مواد کے استعمال پر بھی مکمل پابندی ہو گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 176 کے عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 78 کے تحت کوئی بھی شخص اگر رشوت دینے، دھمکیاں دینے، غلط اثرورسوخ استعمال کرنے یا الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہونے یا کسی امیدوار کو فائدہ پہنچانے کے لیے کسی بھی امیدوار یا اس کے رشتہ دار کے خلاف غلط مواد چھپوانے، بیان دینے یا پروپیگنڈے میں ملوث پایا گیا اور اپنے دعوے کو ثابت نہ کر سکا تو اسے مجرم تصور کیا جائے گا۔

اگر کسی شخص نے مذہب، نسل، صوبے، برادری، ذات پات، قبیلے یا فرقے کی بنیاد پر کسی شخص کو ووٹ ڈالنے پر اُکسایا یا اسے ووٹ ڈالنے سے روکا تو اسے بھی جرم ہی تصور کیا جائے۔

اسی طرح ووٹرز کو ٹرانسپورٹ فراہم کرنا یا کسی ووٹر کو ووٹ ڈالے بغیر وہاں سے لے جانا بھی جرم تصور کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایکٹ کے سیکشن 79 کے تحت اگر کسی نے ایک شخص کو رشوت دے کر کسی کے حق میں ووٹ یا ووٹ ڈالنے سے روکنے یا کسی امیدوار کو الیکشن سے دستبردار یا باز رکھنے کی کوشش کی وہ شخص بھی مجرم تصور کیا جائے گا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Tariq Rahim Apr 15, 2013 03:06pm
جدا ہو دیں سیاست سے... (شاہنواز فاروقی) معروف کالم نویس جناب ہارون الرشید نے ’’اس گھرکو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے‘‘ کے عنوان کے تحت اپنے کالم میں عجیب بات لکھی کہ: ’’عالی مقام سید (ابوالاعلیٰ مودودی) سمیت بہت سے علماء نے اس پہلو کو نظرانداز کیا کہ اہلِ دین کو اقتدار کی جنگ میں شریک نہ ہونا چاہیے۔ اس کھیل کے اپنے تقاضے ہیں جن میں فروغ علم اور تزکیۂ نفس کے بلند و بالا مقاصد سے دست بردار ہونا پڑتا ہے۔ یوں معاشرہ برباد ہوجاتا ہے‘ ریاست کی رزم گاہ بن جاتا ہے۔ افسوس اس گھرکو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘ اور اس سے بھی زیادہ المناک بات یہ ہے کہ مذہبی طبقات کو اب بھی اس تضاد پر غورکرنے کی فرصت نہیں کہ سیاست ان کا نہیں اہلِ سیاست کا کام ہے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ جو کچھ کہا گیا ہے اس میں حیرانی کی بات کیا ہے؟ اس میں حیرانی کی ایک بات تو یہ ہے کہ جناب ہارون رشید نے اپنے مذہبی پس منظر کے باوجود سیکولر لوگوںکا طرزِ کلام اور دلیل اختیار کرلی ہے۔ حیرانی کی دوسری بات یہ ہے کہ ہم لوگ ’’تاریخ ساز‘‘ لوگوں کے بارے میں بھی کتنی آسانی اور سہولت سے کہہ دیتے ہیں کہ انہوں نے فلاں پہلو کو نظرانداز کیا‘ یا یہ کہ انہیں فلاں بات سمجھ میں نہیں آئی۔ حیرت ہے کہ ہمیں تاریخ ساز لوگوں کے فہم پر شبہ ہوجاتا ہے مگر اپنے فہم پر شبہ نہیں ہوتا۔ خیر یہ تو جملۂ معترضہ ہے‘ اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ آخر ہمیں بڑے لوگوں سے بھی اختلاف کا حق حاصل ہے‘ اور ہم نے بڑے لوگوں سے اختلاف کرنا خود بڑے لوگوں سے سیکھا ہے۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات کچھ اور ہے۔ سیکولرازم کا بنیادی مؤقف یہ ہے کہ دین اور دنیا دو الگ حقیقتیں ہیں اور ان میں کوئی تعلق نہیں۔ سیاست چونکہ دنیوی چیز ہے اس لیے اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ دین اپنے اصولوں کے مطابق چلے اور سیاست اپنے ضابطوں کے مطابق کام کرے۔ یورپ میں اس تصور نے نہ صرف دین اور سیاست کے درمیان دائمی تفریق اور خلیج پیدا کی بلکہ رفتہ رفتہ پوری زندگی کو مذہب کے دائرے سے خارج کردیا۔ مسلم دنیا میں سیکولر عناصر یورپ کی اس تاریخ کو عمومی تاریخ باور کراکے اس کا اطلاق اسلامی تاریخ پر بھی کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ یورپ کی تاریخ عیسائیت اور اس کی بیخ کنی کی تاریخ ہے‘ اور یورپ میں عیسائیت کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا‘ اسلام کو اپنی تاریخ میںکبھی ان مسائل کا سامنا نہیں رہا۔ چنانچہ یورپ کی تاریخ ہمارے لیے رہنما اصول فراہم نہیں کرسکتی۔ جہاں تک جناب ہارون رشیدکے بیان کا تعلق ہے تو انہوں نے کہنے کو کہہ تو دیا کہ سیاست علماء کا نہیں اہلِ سیاست کا کام ہے۔ لیکن انہوں نے شاید اس معاملے پر غور نہیں کیا کہ اگر اس تصورکو مان لیا جائے تو اسلامی معاشرے میں قوت کے دو متوازی سرچشمے پیدا ہوجاتے ہیں‘ اور یہ صورت ِ حال اسلام کے تصورِ توحید کے خلاف ہے۔ توحید کا تصور اس امر پر اصرار کرتا ہے کہ زندگی صرف ایک مرکز یا ایک Pole سے چلے یا Govern ہو۔ زندگی کو بیک وقت دو مراکز کے سپرد کرنے کا مطلب ایک طرح کے شرک کی صورت حال پیدا کرنے کے مترادف ہے‘ جس کے ایک عملی نتیجے کی نشاندہی کرتے ہوئے علامہ اقبال نے بالکل درست فرمایا ہے: ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ سیاست اور اہلِ مذہب کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ سیاست کے بارے میں یہ فرض کرلیا جائے کہ وہ مذہب سے بے نیاز ہے‘ یا یہ کہ وہ مذہب کی اتھارٹی کو تسلیم نہیں کرتی کیونکہ وہ بجائے خود اتھارٹی ہے۔ یہ صورت ِ حال معاشرے کو دو دھڑوں میں تقسیم کرکے ان کے مابین ایک غیر ضروری اور تباہ کن کشمکش برپا کرنے کے مترادف ہے جس کی اسلام کسی صورت میں اجازت نہیں دیتا۔ اسلامی معاشرہ اول وآخر ایک ہم آہنگ وحدت ہے جس میں انتشار صرف اسی صورت میں پیدا ہوتا ہے جب افراد ِمعاشرہ اسلام کے بنیادی تصورکی خلاف ورزی کریں۔ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ معاشرے میں فکر اسی کی پروان چڑھتی ہے جس کے پاس سیاسی قوت ہو۔ ہارون رشید صاحب کے اصول کو قبول کرلیا جائے تو اہلِ سیاست کو اہلِ مذہب پر واضح فوقیت حاصل ہوگی اور معاشرہ انہی کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ صورت حال مذہب کی بالادستی تسلیم کرنے کے مترادف ہے یا مذہب کو زندگی سے بے دخل کرنے کے مترادف؟ حضرت مجدد الف ثانی نے افلاطون کو گمراہ قرار دیا ہے اور اقبال نے اُس کے بارے میں کہا ہے کہ اسے نہ غیب سے تعلق ہے‘ نہ اسے حضوری کی دولت حاصل ہے۔ اقبال کے الفاظ یہ ہیں: تڑپ رہا ہے فلاطوں میانِ غیب و حضور ازل سے اہلِ خرد کا مقام ہے اعراف مگر اس کے باوجود افلاطون نے سیاست اور ریاست کے مسائل کا حل یہ بتایا ہے کہ یا تو حکمران فلسفی بن جائے یا کسی فلسفی کو حکمرانی فراہم ہوجائے۔ ہم اپنی اصطلاحیں استعمال کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ افلاطون نے کہا ہے کہ یا تو اقتدار علماء کو حاصل ہوجائے یا اقتدار پر فائز ہونے والے ’’عالم‘‘ بن جائیں۔ سیاست اور ریاست کے مسائل کا اصل حل یہی ہے۔ غور کیا جائے تو پاکستان کی 62 سالہ تاریخ خود اس امرکی غماز ہے کہ اقتدار عالموں کو سونپے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کی تاریخ سیکولر حکمرانوں کی تاریخ ہے۔ بلاشبہ علماء نے اقتدار کے حصول کے لیے جدوجہد ضرور کی ہے مگر انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی‘ چنانچہ پاکستان کی تمام ناکامیوں کی ذمہ داری سیکولر حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ غیر علماء اگر سیاست کے اہل ہوتے تو آج پاکستان کے حالات بہت مختلف ہوتے