فوٹو -- مصنف --.
فوٹو -- مصنف --.

کئی دہائیوں پہلے اداسیوں کے شاعر ناصر کاظمی مرحوم نے کہا تھا: وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے

نہ جانے انہوں نے یہ کیا دیکھ کر کہا مگر اب ان کا خیال حقیقت بنتا جارہا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی صدیوں سے کشتی سازی کے مراکز ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں یہاں فائبر گلاس سے تیار کردہ انجن والی چھوٹی کشتیوں کے متعارف ہونے کے بعد خیال ہے کہ روایتی کشتی سازی کا قدیم فن معدوم ہورہا ہے۔

سندھ کی ساحلی پٹی میں کشتی سازی کے مراکز کراچی اور اس سے ملحق مچھیروں کی قدیم بستیاں ہیں، جن میں مبارک ولیج، ہاکس بے، پیراڈائز، ابراہیم حیدری قابلِ ذکر ہیں۔ بلوچستان کا بڑامرکز گوادرہے۔ پسنی، جیوانی، ڈام ، بھیڑہ اور سونمیانی میں بھی نسبتاً چھوٹے پیمانے پر روایتی کشتیاں بنائی جاتی ہیں۔

ہاکس بے کے ایک کشتی ساز حاجی کے مطابق 'یہ ہمارا خاندانی ہُنر ہے، ہم صدیوں سے یہ کام کررہے ہیں۔ میری خاصی عمر ہوچکی ہے اس کام میں، مگر یہ ہنر باقاعدہ نہیں سیکھا۔ میں چھوٹا تھا، جب ابّا کا کھانا لے کر گھر سے آتا اور پھر یہیں بیٹھ کر کام دیکھتا رہتا، رفتہ رفتہ اس ہُنرمیں ماہر ہوگیا۔'

فوٹو -- مصنف --.
فوٹو -- مصنف --.

سندھ کے ساحلی مچھیرے چھوٹی کشیوں کو ہوڑا کہتے ہیں۔ پانچ، چھ فٹ لمبی ہوڑا سے لے کرچالیس فٹ طویل لانچ بالعمو م تیار ہوتی ہیں۔

کشتی میں کیکر، برما ٹِیک، پین اور شیشم کی لکڑیاں استعمال ہوتی ہیں۔ ایک کشتی یا لانچ کی عمر بالعموم دس برس تصور کی جاتی ہے، تاہم کشتی سازوں کے مطابق برما ٹِیک سے تیار کی جانے والی کشتی زیادہ پائیدار، مگر لاگت کے اعتبار سے بہت مہنگی ہوتی ہے۔

کشتی سازی اب بھی پرانے خطوط پر استوار ہے۔ آرا مشین سے لکڑی کی کٹائی کے علاوہ تمام کام ہاتھ سے کیا جاتا ہے۔ ہوڑا ہو یا لانچ سب کی تیاری ایک ہی طرح سے شروع ہوتی ہے۔

حاجی کے مطابق 'کشتی سازی کا سب سے پہلا مرحلہ ’پتھان، جمانے کا ہوتا ہے۔ یہ کشتی کا پینداہوتا ہے۔ پتھان کے اگلے سِرے پر ’مہرہ، اور ’تیر، نصب کیا جاتا ہے۔ تیر، کشتی کے آگے نصب مضبوط ترین لکڑی کا خم دار شہتیر ہوتا ہے۔ تیر کا عقب لانچ میں عشرہ کہلاتا ہے اور کشتی میں سِرا ’مہرہ، ذرا فاصلے پر نصب کیا جاتا ہے، جوپتھان اور تِیر کو مضبوطی سے جوڑنے کے کام آتا ہے۔

اس کے بعد عقبی مہرہ جوڑا جاتا ہے۔ عقب میں پتھان کے آخر اور سب سے نِچلے سرے پر سکھان نصب کرتے ہیں، جس پر رخ موڑنے والا غیر ساکن تختہ نصب کیا جاتا ہے۔ یہ دائیں بائیں حرکت کرسکتا ہے۔

عقبی مہرے، سکھان اور رخ موڑنے والے تختے کے درمیان فولادی پنکھا نصب کیا جاتا ہے، جسے بعد ازاں ایک شافٹ کے ذریعے انجن سے جوڑ دیا جاتا ہے۔

فوٹو -- مصنف --.
فوٹو -- مصنف --.

پتھان، مہرے اور تیر کو جوڑنے کے بعد کشتی کے دونوں سِروں پر ’لے،جوڑی جاتی ہے۔ کشتی ساز اس خم دار ’لے، کو کشتی کی ’پسلیاں، کہتے ہیں۔ جس سےکشتی کی شکل اور حجم ابھرتا ہے۔،

حاجی کے مطابق ’اس فریم کے سہارے لکڑی کے موٹے موٹے شہتیر وں کو باہم جوڑا جاتا ہے۔ اگر لانچ ہے تو چھپرے، عملے کے کیبن اور سرد خانے کی تیاری شروع کی جاتی ہے۔

آخر میں انجن کی تنصیب، وائرنگ اور ریڈیو آلات نصب کیے جاتےہیں۔ آخر میں پالش ہوتی ہے، پھر شوخ رنگوں سے ان پر بیل بوٹے بناتے ہیں۔،

فوٹو -- مصنف --.
فوٹو -- مصنف --.

روایتی کشتی سازی مکمل طور پر روایتی ہُنر اور ذہنی صلاحیتوں کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ معمر کشتی ساز علی بخش بتاتے ہیں ’ زندگی میں کم از کم ستر بڑی لانچیں اور لا تعداد چھوٹی کشتیاں بنائی ہیں ،مگر مجھ سمیت کوئی بھی کشتی ساز کاغذ پر نقشہ نہیں بناتا ہے۔ ہم ذہن میں نقشہ سوچ کر کام شروع کردیتے ہیں۔،

روایت ہے کہ سندھ میں کشتی سازی کا ہُنر ہندوستانی گجرات کے فن سے مماثلت رکھتاہے۔ بلوچستان میں کشتی سازی اور اس کی آرائش میں خلیجی اور افریقی ممالک کی کشتیوں کی جھلک ملتی ہے۔

تقسیم ہند سے پہلے سندھ کے ساحلی لوگ گجرات تک شکار کرتے تھے اور بلوچستان کی ساحلی پٹی صدیوں سے ان بحری جہازوں کا ٹھکانہ رہی ہے جو خلیجی ممالک سے یہاں آتے تھے۔

اسی طرح عمّان سے آنے والے بحری جہازوں کے ذریعے افریقی غلام لائے جاتے تھے، ممکن ہے کہ ان میں سے بعض ساحلی علاقوں سے غلام بنا کر لائے گئے ہوں۔ یوں بحیرۂ عرب کی پاکستانی ساحلی پٹّی میں ہندی، افریقی اور عرب کشتی سازی کی ثقافت متعارف ہوئی جو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اب مقامی ہوچکی ہے۔

بلوچستان کی نسبت سندھ میں روایتی کشی سازی عام ہے۔ مقامی باشندے اس فن پر اپنا حقِ ملکیت شدت سے جتلاتے ہیں۔ اس میں تبدیلی انہیں گوارا نہیں، البتہ بلوچستان میں لکڑی سے بنی روایتی کشتیوں کا استعمال بتدریج کم ہونا شروع ہوگیا ہے۔

گوادر کے ایک ماہرِ ماحولیات رحیم بلوچ کا کہنا ہے’بلوچستان میں روایتی چھوٹی کشتوں کی جگہ فائبر گلاس سے بنی انجن والی کشتیوں کا رواج لگ بھگ پانچ، دس سال پہلے شروع ہوا تھا۔ متامی مچھیرے انجن والی ہلکی اور چھوٹی کشتیوں کو قبولِ عالم بخش رہےہیں۔،

سندھ کے ساحلی علاقوں میں اب بھی لکڑی سے بنی روایتی کشتیاں ہی استعمال ہورہی ہیں۔ ماہرِ ماحولیات رفیع الحق کے مطابق ’فائبر گلاس کشتیوں کو متعارف کروانے کاسہرا بقائے جنگلات کے لیے سرگرم عالمی اداروں اور غیر سرکاری تنظیمیوں کے سر جاتا ہے۔ جن مقصد جنگلات پر پڑنے والے دباؤ کو کم کرنا ہے۔

رحیم بلوچ کے مطابق ’ فائبر گلاس انجن والی کشتیوں کے استعمال کے فروغ کی کوششوں کو بلوچستان میں زیادہ مثبت جواب ملا ہے،مگر سندھ میں انہیں روایت پسندوں کے جذباتی ردِ عمل کا سامنا ہے۔،

جدی پشتی کشتی ساز اصغر واڈھی کہتے ہیں’اگر یہی حالات رہے تو بہت جلد سندھی کشتی سمندر سے غائب ہوجائے گی۔، ترقی پسند نوجوان بیدل خاصخیلی ان سے اتفاق نہیں کرتے، کہتے ہیں ’ روایات کی پاسداری میں ترقی کو چھوڑ دینا عقلمندی کی بات نہیں۔،

تہذیب و ثقافت اور ترقی کی کشمکش اگلے چند برسوں میں کیا رُخ لائے گے؟ بحیرۂ عرب کی پاکستانی لہروں پر ہاتھ سے تیار کردہ کشتی تیرتی رہے گی یا کارخانوں میں بنی مشینی موٹر بوٹ دوڑے گی؟ جواب وقت پر منحصر ہے۔


 mukhtar-80   مختار آزاد کہانی کار، کالم نگار، دستاویزی فلم ساز اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں