میانی ہور، کا نقشہ۔ بشکریہ گوگل میپس۔
میانی ہور، کا نقشہ۔ بشکریہ گوگل میپس۔

کراچی: بین الاقوامی کنوینشن برائے حیاتیاتی تنوع ( انٹرنیشنل کنوینشن آن بائیلوجیکل ڈائیورسٹی)  پر عمل کرتے ہوئے ایک حالیہ رپورٹ سے ثابت ہے کہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں واقع میانی ہورنامی لگون کو جانوروں اور پودوں کی بہتات اور لاحق خطرات کی وجہ سے پاکستان کا پہلا سمندری محفوظ شدہ علاقہ یا مرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دیا جاسکتا ہے۔

ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر ( ڈبلیو ڈبلیو ایف) کی جانب سے کئے گئے ایک سروے کے بعد قسم قسم کے جانداروں اور پودوں کی بنا پر اسے پاکستان کے بھرپور ترین آبی علاقوں میں سے ایک میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

یہ کراچی سے مغرب کی سمت، 90 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

'میانی ہور پاکستانی ساحلوں پر واحد مقام ہے جہاں تین اقسام کے مینگرووز بھرپور انداز میں ملتے ہیں، ان میں رائزوفورا مکرونیٹا، اویسینیا مرینہ ، اور سیریوپس ٹیگل شامل ہیں۔ جبکہ بلوچستان میں کلمت خور اور جیوانی میں  مینگرووز پائے جاتے ہیں۔' رپورٹ میں کہا۔

اسٹڈی کے مطابق، میانی ہور کی ماحولیاتی صورتحال سمندری حیات ( پودے اور جانوروں) کیلئے بہت مناسب ہے، سمندر سے قریب ہونے کی بنا پر یہ نقل مکانی کرنے والے پرندوں اور ممالیوں کا مسکن ہے۔

رپورٹ کے مطابق، میانی ہور پر 84 اقسام کی مچھلیاں، اور 70 سے زائد اقسام کے پرندے پائے جاتے ہیں جن میں سفید پیلیکن ، ڈیلمیشن پیلیکن، شکرہ، کرینز، گل، شکرا، مصری گدھ، پریگرائن فالکن اور کنگ فشر قابلِ ذکر ہیں۔

میانی ہور لگون کا تفصیلی سروے ابھی جاری ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ لگون ( سمندر سے الگ کھارے پانی کی جھیل) 60 کلومیٹر طویل اور چار سے چھ کلومیٹر وسیع ہے۔

' رپورٹ کے مطابق اس کی چوڑائی چار کلومیٹر سے لے کر دس کلومیٹر تک کے درمیان بدلتی رہتی ہے اور بعض مقامات پر سبزہ نہیں اور ریت کے ٹیلے ہیں۔  اس کا مجموعی رقبہ 370  مربع کلومیٹر ہے۔ یہاں دو دریا وندر اور پورالی گرتے ہیں۔ سال کے پیشتر وقت یہ دریا خشک رہتے ہیں لیکن بارشوں میں بھر جاتے ہیں۔ '

میانی ہور میں جیلی فش کی افزائش بھی کی جاتی ہے۔ فائل تصویر
میانی ہور میں جیلی فش کی افزائش بھی کی جاتی ہے۔ فائل تصویر

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں مینگرووز کاٹے نہیں جاتے اور وہ قدرتی طور پر مرتے ہیں۔ اس کے علاوہ  اب مقامی آبادی نے ایندھن کیلئےدوسرے درختوں پر انحصار شروع کردیا ہے۔

میانی ہور کے پاس تین آبادیاں، سونمیانی، ڈامب بندر اور بیرا کا انحصار میانی ہور سے حاصل ہونے والی مچھلیوں پر ہے۔

' بڑھتی ہوئی آبادی اور مچھلی کے بڑھتے ہوئے شکار کی وجہ سے اس اہم آبی ذخیرے کو خطرات لاحق ہیں۔'

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ ساحلی آبادیاں عمومی طور پر اپنے رویوں میں تحفظ اور بچاؤ کو بہت اہمیت دیتی لیکن بعض مقامات پر وسائل کے بےدریغ استعمال سے خطرات لاحق ہیں۔

میانی ہور کو مرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دینے کی مدلل وجہ یہ ہے کہ کہ پاکستان ان 193 ممالک میں شامل ہے جنہوں نے انٹرنیشنل کنوینشن آن بائیلوجیکل ڈائیورسٹی پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت تمام شامل ممالک کو2012 تک اپنے ساحلی اور سمندری علاقوں کا کم از کم دس فیصد رقبے کو محفوظ مقام قرار دینا تھا۔

اب تک دنیا بھر میں ایسے مقامات کی تعداد  5,880 ہے لیکن دستخط کرنے کے باوجود پاکستان نے اب تک کسی علاقے کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا اور نہ ہی ایسا درجہ دیا ہے۔

اگر پاکستان میانی ہور کو محفوظ شدہ علاقے کا درجہ دیتا ہے تو نہ صرف اس سے حیاتی وسائل سے لبریز اس اہم مقام کی مزید ترقی ممکن ہوگی بلکہ اطراف کی آبادیوں کو بھی اس کا فائدہ پہنچے گا۔

فائزہ الیاس کی رپورٹ

تبصرے (0) بند ہیں