فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار پہلی مرتبہ اپنی بلند ترین مقدار تک پہنچ گئی ہے۔ فائل تصویر
فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار پہلی مرتبہ اپنی بلند ترین مقدار تک پہنچ گئی ہے۔ فائل تصویر

واشنگٹن: انسان کی بیس لاکھ سال کی تاریخ میں جمعے کے روز پہلی مرتبہ گرین ہاؤس گیسز کی اہم ترین جزو کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کی فضا میں چار سو حصے فی دس لاکھ ( پارٹس پر ملین)  تک نوٹ کی گئی ہے۔

امریکی سائنسدانوں نے کہا ہے کہ انسانی تاریخ میں اس ستے قبل ایسا نہیں ہوا۔ امریکہ میں ہوائی کے ایک اہم مانیٹرنگ سٹیشن پر فضا میں کاربن ڈاائی آکسائیڈ کی یہ مقدارنوٹ کی گئی ہے۔

400   کا واضح ہندسہ موسمیاتی ماہرین کیلئے خصوصی اہمیت اور تشویش کی وجہ ہے ۔

' آج ہم جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں وہ سو فیصد انسانی کارروائیوں کا نیجہ ہے' نینشنل اوشیانک اینڈ ایٹماسفیئرک ایڈمنسٹریشن کے سائنسدان پائٹر ٹینس نے کہا۔

فاسل ایندھن مثلاً کوئلہ، گیس اور پیٹرول کے جلنے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے اور ہماری زمین کے گرد ہواؤں کے غلاف میں جمع ہوتی رہتی ہے۔ اور فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جمع ہونے کے ذمے دار ہم انسان ہیں۔

پچھلے برفانی عہد ( آئس ایج) کے اختتام تک کے سات ہزار برس میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شرح صرف 80 فی دس لاکھ تھی۔ جبکہ زمین پر فوسل فیول کے بے دریغ استعمال سے یہ شرح صرف 55 سال میں ہی اپنی حدوں کو چھونے لگی۔

پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں آب وہوا کے ماہر مائیکل مان نے کہا کہ اگر فضا کے دس لاکھ حصے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو سو حصے کی سطح تک پہنچنے میں چند ہزار یا لاکھ برس لگیں تو جانور، ماحول اور پودے ان کو برداشت کرنا اور خود کو ڈھالنا شروع کردیتے ہیں لیکن یہ اضافہ صرف چند عشروں میں ہوجائے تو پھر سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اور یوں اب ایسا ممکن نہیں۔

ماہرین کے مطابق اب سے بیس لاکھ سال قبل ایسا ہوا تھا جب زمین پر کاربن کی سطح آج کے لیول تک پہنچی تھی۔ اس وقت بہت گرمی تھی ۔ گرین لینڈ میں جنگلات تھے اور سمندروں کی سطح بلند تھی شاید آج سے دس تا بیس میٹر بلند۔

تبصرے (0) بند ہیں