artefacts-670
کراچی: پولیس اہلکار تحویل میں لی جانے والی مورتیوں کا جائزہ لے رہا ہے۔—اے ایف پی

تاریخی نوادرات کی لوٹ مار اور اسمگلنگ کا شمار پاکستان میں تواتر کے ساتھ پیش آنے والے جرائم میں ہوتا ہے تاہم اس قسم کے جرم کو انتہائی معمولی توجہ حاصل ہوتی ہے۔

ہمارے ملک میں قبل از اسلامی عہد کے فن پاروں کا ایک نمایاں ذخیرہ موجود ہے البتہ آثارِقدیمہ کے قومی ذخائر کے نگہبان صوبوں کے پاس انکی موثر حفاظت ونگہداشت کیلئے درکار وسائل کی انتہائی کمی ہے۔

وقتاَ فوقتاَ ایسے نوادرات کی چوری کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جبکہ جنگجوؤں کی جانب سے کئے جانے والے نقصانا ت الگ ہیں۔ مثال کے طور پر سوات میں طالبان دور میں ہونے والی تباہی کے دوران وہاں موجود گندھارا تہذیب کے نوادرات کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا اتا پتہ نہیں۔

کچھ سال قبل، سوات کے علاقے جہان آباد میں جنگجوؤں نے گوتم بدھ کے چالیس میٹر اونچے اور دو ہزار سال قدیم پہاڑی پر تراشے ہوئے مجسمے کو تباہ کردیا تھا۔اس مسئلے کا ایک پہلو ہمارے معاشرے کا وہ عمومی رویہ ہے جو اپنے ہی ملک کی تاریخ اور اسکے قیمتی ورثہ کو اپنانے سے منکر ہیں اور انہیں وہ اہمیت نہیں دیتے جسکے وہ مستحق ہیں۔

یوں تو یہ ایک مثبت خبر ہے کہ کراچی پولیس نے مخبری کی بنیاد پر چھاپہ مار کر گندھارا تہذیب کے نوادرات کا ایک غیر قانونی ذخیرہ برآمد کر لیا مگر ان انمول فن پاروں کے ساتھ جو لا پرواہی برتی گئی اسے نمایاں کرنا بے حد ضروری ہے۔

لانڈھی سے، ایک ٹریلر پر رکھے کنٹینر میں موجود یکم عیسوی سال سے پانچویں صدی عیسوی تک کےانسانی قامت کے مجسمے،تختیاں اور برتن جیسے نوادرات برآمد کیئے گئے۔ان قیمتی اشیاء کے وزن اور شاید انکی قدرو قیمت سے بھی ناواقف پولیس اہلکار وں نے انہیں اتارتے ہوئے کافی نقصان پہنچایا۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ ان نوادرات کی تھوڑی تعداد میں کراچی منتقلی کا ممکنہ مقصد انہیں ملک سے باہر اسمگل کرنا تھا۔

یہ واقعہ اس بات کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ پاکستان کو اپنے ورثے اور تاریخی نوادرات کی حفاظت کیلئے بہت کچھ کرنا ہوگا اور اس ضمن میں غیرقانونی تجارت کی روک تھام بھی لازمی ہے۔متعلقہ  قوانین کی، جیسے کہ ۱۹۷۵  کے نوادراتی ایکٹ،  موجودگی میں غیر قانونی یا لا پرواہی سے ہونے والی کھدائی یا منتقلی کو روکنے کیلئے ہمارے پاس کچھ نہیں۔ جہاں اس معاملے پر انتہائی توجہ درکار ہے وہیں عوام کو اسکی اہمیت کا احساس دلانے کی بھی ضرورت ہے۔

ریاست کو ہمارے تاریخی اورقبل از اسلامی عہد کے ورثہ کی ذمہ داری قبول کرنے کے علاوہ اسکے بارے میں عوامی شعور پیدا کرنے کیلئے سیمینار وں کا انعقاد اوراسکی درسی کتابوں میں شمولیت کرنا چاہیے۔ نیز،اس ملک کے انتہائی قیمتی ورثے کی حفاظت اور نمائش کیلئے بھی ایک قومی منصوبہ درکار ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں