سابق صدر پرویز مشرف—فائل فوٹو
سابق صدر پرویز مشرف—فائل فوٹو

اسلام آباد: سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے خلاف ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے کے مقدمے  کے حوالے سے ایک حیرت انگیز پیشرفت  یہ سامنے آئی ہے کہ اس کیس کی پٹیشن فائل کرنے والے وکیل نے اپنی درخواست واپس لے لی ہے۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے تحت اس مقدمے کی سماعت ہفتے کے روز جنرل مشرف کے فارم ہاؤس واقع چک شہزاد میں ہونی تھی، جسے سب جیل قرار دیا جاچکا ہے۔ اس سے پہلے ہی ایڈوکیٹ چوہدری محمد اسلم گھمن نے یہ فیصلہ کیا اور اپنی درخواست واپس لے لی۔

ججز کو حبس بے جا میں رکھنے کا کیس سیکریٹیریٹ پولیس اسٹیشن میں گیارہ اگست 2009ء کو ایڈوکیٹ اسلم گھمن کی شکایات پر درج کیا گیا تھا، انہوں نے اپنی درخواست میں استدعا کی تھی کہ اعلیٰ عدالتوں کے ساٹھ ججوں کو پانچ ماہ سے زیادہ ان کے گھروں پر نظربند رکھنے اور انہیں انصاف سے روکنے کے جرم پر سابق فوجی حکمران کے خلاف کارروائی کی جائے۔

جمعہ کے روز ڈان سے بات چیت کے دوران ایڈوکیٹ اسلم گھمن نے کہا کہ انہوں نے اپنی شکایت وسیع تر قومی مفاد میں واپس لے لی ہے۔ ”جنرل مشرف کے خلاف یہ مقدمہ ایک ریاستی معاملہ ہے جو قومی مفاد میں نہیں، لہٰذا میں نے یہ سوچ کر میں نے یہ مقدمہ واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔“

انہوں نے مزید کہا کہ ”پٹیشن واپس لینے کا فیصلہ کرنے سے قبل میں نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا اور کافی غورخوض کرنے کے بعد میں نے یہ اقدام اُٹھایا۔“

ایڈوکیٹ اسلم گھمن نے کہا کہ وہ اب آئندہ نہ تو عدالت میں پیش ہوں گے اور نہ ہی عدالت پر جنرل مشرف پر مقدمہ چلانے پر زور دیں گے، انہوں نے مزید کہا کہ اب یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ ان کے خلاف اس مقدمے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔

یہاں یہ واضح کردیاجائے کہ چند ہفتے قبل کم ازکم تین وکلاء جن میں اسلام آباد پولیس کے خصوصی سرکاری وکیل سید محمد طیب بھی شامل تھے، نے خود کو اس مقدمے سے علیحدہ کرلیا تھا۔ بقیہ دو وکلاء میں راجہ رضوان اور قمرافضل نے رپورٹ کی تھی کہ انہیں نامعلوم افراد کی طرف سے دھمکیاں دی گئی ہیں۔

لیکن اس وقت ایڈوکیٹ اسلم گھمن نے ایسی تمام اطلاعات کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کسی دباؤ یا خوف کے تحت اپنے کیس کو صورت واپس نہیں لیں گے اور انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ انہیں کسی جانب سے بھی دھمکیاں نہیں ملی ہیں۔

چوہدری اسلم گھمن کے وکیل ایڈوکیٹ اشرف گجرنے ڈان کو بتایا کہ انہیں اپنے مؤکل کے اس فیصلے کے بارے میں ذرا بھی علم نہیں تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسلم گھمن نے اس معاملے پر ان سے کوئی مشورہ نہیں کیا ، اگرچہ کہ وہ ان کی جانب سے ہی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

ایڈوکیٹ اشرف گجر کی رائے یہ تھی کہ اسلم گھمن اپنی شکایت کو واپس نہیں لے سکتے، اس لیے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن کے تحت ایف آئی آر بھی اس میں شامل ہے۔صرف ریاست اس کیس کو واپس لے سکتی ہے۔

قانونی ماہر بیرسٹر ظفراللہ خان کے مطابق اس طرح کے مقدمے میں کوئی فرد خود کو انفرادی طور پر تو الگ کرسکتا ہے، لیکن مقدمہ واپس نہیں لے سکتا۔

انہوں نے ڈان کو بتایا ”کسی جرم کے سرزد ہونے کے بعد، شکایات درج کرانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے ریاستی مشنری کو اس کے بارے میں مطلع کردیا گیا ہے، اور اب مجرم کے خلاف کارروائی  کی ذمہ داری پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کاندھوں پر منتقل ہوجاتی ہے۔“

انہوں نے کہا”جرم معاشرے اور ریاست کے خلاف ایک غیرقانونی حرکت سمجھی جاتی ہے۔اس کے بعد صرف وفاقی اور صوبائی حکومت ضلع مجسٹریٹ یا ڈپٹی کمشنر کے ذریعے مجرم کے خلاف مقدمے کو واپس لے سکتی ہے۔“

جنرل مشرف کے خلاف شکایت پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 344 کے تحت درج کی گئی تھی۔ اور اس کی رو سے یہ ایک قابل ضمانت جرم ہے، جس کی سزا زیادہ سے زیادہ تین سال قید ہے۔

اٹھارہ اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جنرل مشرف کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست رد کردی تھی۔ اور انہوں نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو طاقت کے بل بوتے پر حبس بے جا میں رکھنے اور انہیں اپنی قانونی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے روکنے کو اقدامِ دہشت گردی  قرار دیا تھا۔ انہوں نے حکم دیا تھا کہ پولیس سابق فوجی حکمران کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 7 کے تحت گرفتار کرلے۔

اگر اس سیکشن کے تحت عدالت سزا سناتی ہے تو جنرل مشرف کو عمرقید ہوسکتی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

ilyasansari May 18, 2013 07:17am
ٹائیں ٹائیں فش