پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک ایسے شخص کو مسندِ اقدار پر بٹھا دیا ہے جس کی کمرپر نااہلی اورکم صلاحیت کا بوجھ اور سرپر بدعنوانی کے الزامات سے بھرا بدبودارٹوکرا دھرا ہے۔ اس کا منتخب ہونا قوم کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ ہے جو بے چاری پہلے ہی لکڑی کے ٹکڑے کی طرح لوڈشیڈنگ کے جہنم میں جل رہی ہے۔

حکومتی اتحادیوں نے بھی ایسے نااہل شخص کے سر پروزیراعظم کا تاج رکھ کر اس تھپڑ میں حصہ ڈالا ہے اوراپنے مفادات کی حفاطت کی ہے۔ ایسے شخص کے منتخب ہونے سے قوم کے دلوں میں انقلاب کے چشمے تو نہیں پھوٹے مگر قوم کو ایسا بھی نہیں لگنا چاہیے تھا جیسے ان سے انتقام لیا گیا ہے۔

صرف ایک شخص پورے پاکستان پر حکومت کر رہا ہے اور راجہ پرویز اشرف کو منتخب کر وا کراین آر او کے بطن سے پھوٹنے والے کیسوں کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔ صرف دو سو گیارہ ووٹوں نے پوری قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ایسے میں پرویز مشرف اورپرویزاشرف میں کونسا فرق باقی رہ جاتا ہے؟

ایک شخص پوری پاکستانی قوم کے مستقبل کا فیصلہ کر رہا ہے، جس قوم نے پینسٹھ سالوں سےامت کی سربراہی کے خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں کہ وہ سائِنس کے میدانوں میں ترقی کر کےٹائم ٹریول مشین کے ذریعے واپس چھٹی صدی عیسوی میں پہنچ جاہیں۔

دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی طاقت کی سربراہی ایسا شخص کر رہا ہے جس نے ایچیسن کالج کی شکل بھی نہیں دیکھی۔ ایک ایسےشخص کو اس کرسی پر بٹھا دیا گیا جس پر کبھی عالی مرتب بھٹو ، بے نظیراورنواز شریف جیسے پایے کے لیڈر اور مدبر سیاستدان براجمان رہے تھے۔  یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں گدھے اور گھوڑے کا فرق مٹا دیا جائے۔ جمہوریت میں سر گنے جاتے ہیں ان کے اندر نہیں دیکھا جاتا۔

کیا مدرسے جانے والے پرہیزگار شخص اور مغربی تعلیم حاصل کرنے والے جاہل شخص میں کوئی فرق نہیں ہے؟ کیا اب وکیل، صحافی، تھانیدار یا مجسٹریٹ ایک برابر ہو گئے ہیں؟

مشہور فلسفی سقراط نے بھی ایتھنز کی جمہوریت پہ تنقید کی تھی جو کہ سپارٹا سے شکست کا باعث بنی تھی۔ روس کو شکست دینے کے بعد اب امریکہ بھی ہمارے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونے والا ہے اور غزوہ ہند بھی گھاس کے وسیع میدانوں سے شروع ہونے والا ہے۔

کیا اب ہم یہ فتوحات ایسے سیاستدانوں پر چھوڑ دیں جو لا حاصل بحثوں پر پارلیمنٹ میں وقت کا ضیاع کرتے پھریں۔ یا پھر ایسے مرد مومن کا ساتھ دیں جو ہمارے دلوں میں محمود غزنوی کی فتوحات کی یاد تازہ کر دے۔ جیسا کہ ہمارے قومی شاعر نے کہا ہے۔

اٹھا کرپھينک دو باہرگلی ميں نئی تہذيب کےانڈے ہيں گندے الیکشن،ممبری،کونسل،صدارت بنائےخوب آزادی نے پھندے

عظیم رہنماء مرد مومن، مرد حق ضیاالحق نے کہا تھا کہ جمہوریت ایک مغربی سازش ہے جو ہمارے گرم آب و ہوا کو راس نہیں آتی بلکہ نجد کے ریگستانوں کے لیے تو زہر قاتل ہے۔ اسی لیے اس نے پارلیمنٹ کے بجائے مجلس شوربہ بنائی۔ اب اس مجلس شوربہ میں دوہری قومیت کے نا م پرامپورٹڈ چکن ڈالا جا رہا ہے ۔ ہمارے شکاری گوشت کو بھکاری گوشت میں تبدیل کرنے کوشش ہو رہی ہے۔

پاکستان میں صرف ایک ہی جمہوری کام کرنے والے حکومتی ملازمین کو پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پرمفلوج بنایا جا رہا ہے۔ جیسا کہ ہمارے قومی شاعر نے کہا ہے

ايک ہی صف ميں کھڑے ہوگئےمحمود و اياز نہ کوئی بندہ رہا اورنہ کوئی بندہ نواز

اب وقت اگیا ہے کہ محمود اور ایاز صف آرا ہو کرجمہوریت کے مندر پر حملہ کرکے اس کے اندر طاغوت کے بتوں کو توڑ ڈالیں۔


صابر نذر کارٹونسٹ ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں