فائل فوٹو۔۔۔۔۔

شکر ہے کہ پولیس اور سٹیزن ۔ پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) نے، کراچی میں بروقت کارروائی کر کے مصطفٰی ڈوسل کو جرائم پیشہ کے چنگل سے بازیاب کرالیا۔

جیسا کہ سی پی ایل سی کے سربراہ نے نشاندہی کی، بالخصوص ایسے میں کہ جب اغوا کار متاثرہ بچے کے بارے میں جانتے تھے، یہ نہایت حساس معاملہ رہا اور اس میں مغوی کی زندگی داؤ پر لگی ہوئی تھی۔

اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ پہلا جرم تھا، جس میں فیس بُک پر دوستی کرنے والے نے تیرہ سالہ بچے کو لنچ کے بہانے بلایا اور اسے اغوا کر کے لیاری گینگسٹر کے حوالے کردیا، جنہوں نے بعد میں بچے کے والدین کو تاوان کے لیے فون کیا۔

فیس بُک پر اپ لوڈ کی گئی تصاویر کی مدد سے اغوا کار کی شناخت ہوئی اور بعدازاں اتوار کی شب اُس کا سراغ بھی لگالیا گیا۔

پچیس سالہ اغواکار نے مصطفٰی کے سراغ لگانے کا عمل خاصامشکل بنادیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اس نے کسی حد تک اپنے جرم کا بہتر منصوبہ بنایا ہو۔

ملک میں اغوا برائے تاوان سنگین حد تک معمول کا جرم بن چکا ہے لیکن اس کیس میں نوجوان بچوں کے والدین اور سرپرستوں کے لیے ایک سبق بھی پنہاں ہے اور جتنا جلد ہوسکے اسے سمجھ لینا چاہیے۔

'اجنبیوں سے کبھی بات نہ کی جائے' آن لائن کی دنیا میں یہ نصیحت پہلے سے کہیں زیادہ درست ہے۔

اس آن لائن معاشرے میں شناخت اور عمر کو با آسانی پوشیدہ رکھتے ہوئے، معلومات میں بڑے آرام سے ہیرا پھیری کر کے، اسے کسی بھی جرم میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

مغربی دنیا جہاں آن لائن سرگرمیاں طویل عرصے سے سماجی زندگی کی ایک قدر بن چکی ہے، وہ بھی انٹر نیٹ رابطوں کے ذریعے اغوا اور فراڈ جیسے واقعات کے بعد یہ درس حاصل کرچکا ہے۔

شہری پاکستان، جہاں سوشل میڈیا تیزی سے مقبول ہوتا جارہا ہے، اس بات کی ضرورت ہے کہ نہ صرف اس سے منسلک خطرات کا احساس کیا جائے بلکہ اس کے بارے میں نوجوانوں میں آگاہی بھی پھیلائی جائے۔

اٹرنیٹ پر قابلِ رسائی مواد کی اصطلاح میں کہیں تو یہ بچوں کے لیے نامناسب ہے، گھروں پر محدود انٹرنیٹ رسائی کے لیے فلٹرز لگائے جائیں لیکن سماجی رابطوں کی ویب سائٹس، جیسا کہ فیس بُک، پر فلٹرز کار گر نہیں ہوتے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں سے دوستانہ رویہ رکھیں اور انہیں آن لائن دنیا کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں آگاہ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں