پاکستان میں طاقت کا اصل محور کون ،وزیرِ اعظم یا آرمی چیف۔ فائل تصویر
پاکستان میں طاقت کا اصل محور کون ،وزیرِ اعظم یا آرمی چیف۔ فائل تصویر

اسلام آباد: آج پانچ جون کے تاریخی دن ایک جمہوری حکومت کی مدت مکمل ہونے کے بعد اقتدار دوسری جمہوری حکومت کے حوالے کیا گیا اور قوم پرُ امید تھی کہ اب ملک میں فوج کی بالا دستی قائم نہیں رہے گی۔ لیکن کم ازکم شہرِ اقتدار کی سڑکوں پر صورتحال اس کے برعکس ہی رہی ۔

جیسے ہی اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ وزیرِ اعظم نواز شریف بدھ کو تقریبِ حلف برداری کیلئے ایوانِ صدر کی جانب روانہ ہوئے ، انہیں اسلام آباد کی سڑکوں پر ایک اہم حقیقت کا سامنا کرنا پڑا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں حقیقی طاقت کا مالک کون ہے؟ وزیرِ اعظم یا آرمی چیف؟ نظری اعتبار سے آرمی چیف ایک بائیس گریڈ کے افسر کو جوابدہ ہے۔ لیکن عملی طور پر وہ ملک میں کسی منتخب یا غیر منتخب شخص سے کہیں زیادہ طاقت رکھتے ہیں۔

بدھ کو میاں نوازشریف کے وزیرِ اعظم بننے کے فوراً بعد اس حقیقت کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔

قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے  بعد وزیرِ اعظم پنجاب ہاؤس پہنچے۔

وزیرِ اعظم کو صدر آصف علی زرداری سے حلف لینے کیلئے چار بجے تک ایوانِ صدر تک پہنچنا تھا۔

تقریبِ حلف برداری میں ، تینوں مسلح افواج کےسربراہان، سیاسی جماعتوں کے رہنما، سفارت کار اور سینیئر سول اور ملٹری افسران نے شرکت کی۔

پاکستان مسلم لیگ نون ( پی ایم ایل این) کے ذرائع اورعینی گواہان نے بتایا کہ پنجاب ہاؤس سے سب سے پہلے خاتونِ اول کلثوم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم صفدر کا قافلہ گزرا۔ ان کے پیچھے حمزہ شہباز اور حسن نواز کی گاڑیاں تھیں۔

وزیرِ اعظم نواز شریف کا موٹر کیڈ اپنے اہلِ خانہ کی گاڑیوں سے قریب موجود تھا۔ جیسے ہی ان کا قافلہ مرگلہ روڈ سے متصل پنجاب ہاؤس کے بیرونی بیریئر کے پاس پہنچا۔ ایک فوجی کمانڈو نے پوری قوت سے سیٹی بجاتے ہوئے ان کی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا۔

نتیجتاً وزیرِ اعظم کا کاررواں رک گیا اور یہ دورانیہ دو سے تین منٹ کا تھا۔

کمانڈو وہیں موجود رہا اور اس امر کی تصدیق کی کہ آرمی چیف کے کاررواں کو گزرنے کیلئے کوئی رکاوٹ موجود نہیں ۔ اس نے چیف آف آرمی سٹاف کے گزرجانے کے بعد ہی پنجاب ہاؤس سے گاڑیوں کو گزرنے کی اجازت دی۔

کیا یہ محض اتفاق تھا ، حتمی  طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ پی ایم ایل این کا کوئی رہنما اس پر گفتگو کیلئے تیار نہیں، لیکن شاید نو منتخب وزیرِ اعظم نے اپنے قریب ترین دوستوں سے اس کا ذکر کیا ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (9) بند ہیں

TASNEEM AKHTAR KHAN Jun 06, 2013 08:11am
Not a big deal, after all Mian Nawaz Sharif had absolute majority and as such he should not be worried about if his motorcade was stopped so that PAK could pass by and also there was no need to make an issue of this situation. We should move forward leaving behing such issues. Its about time, we change our mentality for the sake of better and prosperous Pakistan. What had happened in the past had to be left alone and look forward.
فاروق احمد Jun 07, 2013 04:01am
دنیا کے ہر ملک کی مسلح افواج اپنے ملک کے دفاع کرنے کے لیئے ہوتی ہے پاکستان وہ خوش نصیب؟ ملک ہے جس کی مسلح افواج کے پاس ایک ملک بنام پاکستان موجود ہے
Imran Shaheen Jun 08, 2013 12:06pm
I think it was an intentional episode by the Pak Army just to make realise the elected Prime Minister of Pakistan that we still hold the real power. The power cult in Army is the basic hindrance in the development of this country. They are responsible for all the crisis and miseries of this Nation.
Israr Muhammad Khan Jun 08, 2013 06:53pm
انتخابات سے پہلے آرٹیکل 62/61 کا هر طرف زکر تھا اور اس پر عمل درآمد کیلئے بڑا زور لگایا گیا دھرنے بھی دیئے گئے اور دھمکیاں اور الٹی میٹم بھی دیئے گئے تھے لیکن اسپر کتنا عمل هوا بچہ بچہ جانتا هے اور الیکشن کے بعد آرٹیکل ‏6 کا هر جگہ بہت چرچآ هے اسمبلی کے اندر باہر اور میڈیا پر هر ایک کا صرف یہی ایک موضوع هے کۂ آرٹیکل لگایا جائے یا نہیں کب سے لگایا جائے یۂ سب کچھ آجکل بہت هی زیربحث هے لیکن اچھی بات یۂ هوئی که قومی اسمبلی حلف کے محمود خان نے یہی بات چیڑ دی اور اسکی تائید تمام پارٹیوں نے برملا کی جو ایک تاریخی موقعۂ تھا جس کا میں حیرمقدم کرتا هوں اللہ کرے کۂ وه اپنے قول پۂ قائم رہیں آج ملک میں آئین توڑنے والے موجود هیں اور عدالتوں میں اسی حوالے سے مقدمات بھی چل رہے هیں میری ذاتی رائے هے کۂ کیوں نۂ موجوده پارلیمان ایک متفقۂ قرارداد کے زریعے فریق بنکر مدعی کے طور اس مقدمہ میں شامل هوجایے اور مقدمہ لڑکر ان آئین شکن یا شکنوں کو انجام تک پہنچائیں اور آئندہ کیلئے اس قصے کو ختم کروائیں بے شک مقدمہ میں اگر کسی کو مجرم قرار دیا گیا تو انکو سزا ضرور دی جائے وه یوسف گیلانی کی سزا جتنی کیوں نۂ هوں مگر ابتدا تو کرنی هے اب اس قضیے کو همیشۂکیلئے حتم کرنا هوگا آج موقعۂ اورحالات دونوں موجود هیں اوراس میں ٹال مٹول کی گنجائش نہیں اورنۂ کسی مصلحت کی ضرورت هے یه کام انجام کی پروا کئے بغیر شروع کیا جائے بصورت دیگراسمبلی میں جذباتی تقریروں سےکچھ حاصل نہیں هوگا
محمد ناصر راجپوت Jun 09, 2013 01:37pm
عمل سے زندگی بنتی ھے جنت بھی جھنم بھی یھ خاکی اپنی فطرت میں نوری ھے نھ ناری ھے بھائ اللھ کو حاظرناظر جان کر فیصلے کریں گے تو انشااللھ کامیابی ان کے قدم چومے گی ورنھ وھی ھو گا جو ھوتا آیا ھے.
Israr Muhammad Khan Jun 09, 2013 02:25pm
اب وقت آگیا هے کۂ پنڈی اور اسلام آباد کے درمیان فیصلہ هونا چاہیے آج پارلیمان کے پاس موقع هے کۂ وه اس طاقت کے توازن کو همیشۂ کیلئے طے کرے پھر کوئی سارجنٹ وزیراعظم کے قافلے کو چھوڑیے کسی عام آدمی کو بھی نہیں روک سکے گا بس پہلے قدم کی ضرورت هے
zamin Jun 10, 2013 03:17pm
aray, sab k say log ullo ban gai hain. Is say kia farq parta hai ke Army Chief ziada taqarwar hai ya Civil Government ka numaeenda! Ye fazool bahes hai. Awam ki baat karain awam k. Mehenga ee. garmi aur baghair bjlee. berozgari aur zalalat. Baar me jaaen sab taqat walay. kam taqat walay aur ziada taqat walay.
پاکستان میں طاقت کا اصل محور کون ؟؟؟ - پاکستان کی آواز Jun 10, 2013 06:16pm
[…] پاکستان میں طاقت کا اصل محور کون ؟؟؟ khuram vbmenu_register("postmenu_580349", true); 10-06-13, 11:15 PM جب آرمی چیف کے گزرنے کیلئے وزیرِ اعظم کو روکا گیا اسلام آباد: آج پانچ جون کے تاریخی دن ایک جمہوری حکومت کی مدت مکمل ہونے کے بعد اقتدار دوسری جمہوری حکومت کے حوالے کیا گیا اور قوم پرُ امید تھی کہ اب ملک میں فوج کی بالا دستی قائم نہیں رہے گی۔ لیکن کم ازکم شہرِ اقتدار کی سڑکوں پر صورتحال اس کے برعکس ہی رہی ۔ جیسے ہی اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ وزیرِ اعظم نواز شریف بدھ کو تقریبِ حلف برداری کیلئے ایوانِ صدر کی جانب روانہ ہوئے ، انہیں اسلام آباد کی سڑکوں پر ایک اہم حقیقت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں حقیقی طاقت کا مالک کون ہے؟ وزیرِ اعظم یا آرمی چیف؟ نظری اعتبار سے آرمی چیف ایک بائیس گریڈ کے افسر کو جوابدہ ہے۔ لیکن عملی طور پر وہ ملک میں کسی منتخب یا غیر منتخب شخص سے کہیں زیادہ طاقت رکھتے ہیں۔ بدھ کو میاں نوازشریف کے وزیرِ اعظم بننے کے فوراً بعد اس حقیقت کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد وزیرِ اعظم پنجاب ہاؤس پہنچے۔ وزیرِ اعظم کو صدر آصف علی زرداری سے حلف لینے کیلئے چار بجے تک ایوانِ صدر تک پہنچنا تھا۔ تقریبِ حلف برداری میں ، تینوں مسلح افواج کےسربراہان، سیاسی جماعتوں کے رہنما، سفارت کار اور سینیئر سول اور ملٹری افسران نے شرکت کی۔ پاکستان مسلم لیگ نون ( پی ایم ایل این) کے ذرائع اورعینی گواہان نے بتایا کہ پنجاب ہاؤس سے سب سے پہلے خاتونِ اول کلثوم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم صفدر کا قافلہ گزرا۔ ان کے پیچھے حمزہ شہباز اور حسن نواز کی گاڑیاں تھیں۔ وزیرِ اعظم نواز شریف کا موٹر کیڈ اپنے اہلِ خانہ کی گاڑیوں سے قریب موجود تھا۔ جیسے ہی ان کا قافلہ مرگلہ روڈ سے متصل پنجاب ہاؤس کے بیرونی بیریئر کے پاس پہنچا۔ ایک فوجی کمانڈو نے پوری قوت سے سیٹی بجاتے ہوئے ان کی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا۔ نتیجتاً وزیرِ اعظم کا کاررواں رک گیا اور یہ دورانیہ دو سے تین منٹ کا تھا۔ کمانڈو وہیں موجود رہا اور اس امر کی تصدیق کی کہ آرمی چیف کے کاررواں کو گزرنے کیلئے کوئی رکاوٹ موجود نہیں ۔ اس نے چیف آف آرمی سٹاف کے گزرجانے کے بعد ہی پنجاب ہاؤس سے گاڑیوں کو گزرنے کی اجازت دی۔ کیا یہ محض اتفاق تھا ، حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ پی ایم ایل این کا کوئی رہنما اس پر گفتگو کیلئے تیار نہیں، لیکن شاید نو منتخب وزیرِ اعظم نے اپنے قریب ترین دوستوں سے اس کا ذکر کیا ہوگا۔ جب آرمی چیف کے گزرنے کیلئے وزیرِ اعظم کو روکا گیا | Dawn Urdu […]
سید مجاہد حسین گیلانی Jun 11, 2013 12:01pm
یہ بات درست ہےاور اس سے کوئی فرق نہیں بڑتا کہ زیادہ طاقت ور کون ہے چیف یا پرائم منسٹر یہ سب لوگ خود ہی تو کہتےہیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو پھر ان میں سے کسی کو اس بات کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے بنیاد عوام کے ووٹوں سے رکھی جاتی ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کی ذات اقدس سب سے بڑی طاقت ہے جس نے فرعوں کو جس نے خدائی کا دعوٰی کیا تھا خاک میں ملا دیا اور آج کے فرعونی سوچ رکھنے والوں کا انجام بھی ویسا ہی ہو گا. ان میں سے کسی کے آگے یا پیچھے گزرنے سے عوام بیچاری کا کیا فائدہ یا نقصان ہوا. عوام تو چاہتی ہےکہ انہیں امن کا ملک ملے سکون کی نیند آئے ،مہنگائی کا خاتمہ ہو جائے، ان کے بچوں کو آسانی سے روزگار مل جائے ،بجلی کا مسئلہ مسئلہ نہ رہے ،بےحیائی کا خاتمہ ہو ،عزتیں محفوظ ہوں ،دہشت گردی ختم ہو اور اسی طرح کے بےشمار مسئلے جو عوام کی ضرورت ہیں یہ حل کر دیں پھر چاہے کوئی آگے جاتا ہے یا پیچھے آتا ہے عوام اسی میں خوش ہوں گے . ورنہ ......ان باتوں سے کوئی فرق نہیں بڑتا.