عراق: متعدد بم دھماکوں میں 23 افراد ہلاک
بغداد: عراق کی مختلف مارکیٹوں میں ہونے والے چار بم دھماکوں اور ایک خود کش حملے میں کم از کم 23 افراد ہلاک ہو گئے۔
ایک پولیس افسر نے بتایا کہ شمالی بغداد کی ہول سیل مارکیٹ میں ہونے والے دو کار بم دھماکوں اور ایک خود کش حملے میں 13 افراد ہلاک اور 53 زخمی ہوئے ہیں۔
دھماکے صوبہ دیالا کے دارالحکومت بعقوبہ کے مغرب میں واقع شیعہ اکثریتی علاقے میں ہوئے جو اس وقت پرتشدد واقعات کا گڑھ بن چکا ہے۔
پولیس اور میڈیکل حکام کا مطابق دھماکے ایسے وقت پیش آئے جب ریٹیل خریدار اپنے روزگار کے لیے سبزی اور پھلوں کو سستے دام خریدنے آئے تھے-
بغداد کے شمالی کنارے پر واقع تاجی کے ایک مچھلی بازار میں ہونے والے ایک اور کار بم دھماکے میں کم از کم 7 افراد ہلاک ہو گئے جبکہ تز خرمتو میں ایک بارود سے بھری گاڑی میں دھماکے سے 3 افراد ہلاک ہو گئے۔
ابھی تک کسی نے ان حملوں کی ذمے داری قبول نہیں کی لیکن اگرچہ القاعدہ سے منسلک سنی عسکریت پسند، اکثرو بیشتر شیعوں کو اپنا مخالف سمجھنے کی وجہ سے نشانہ بناتے رہیں ہیں، اور مسلسل بڑے پیمانے پر بم باری بھی کرتے رہے ہیں-
دھماکے میں زخمی ہونے والے ایک سبزی فروش محمد ال زیدی نے اے ایف پی کو بتایا کہ دہشت گردی کی اس کارروائی کے پیچھے القاعدہ ہے، ہم سنی بھائیوں کے ساتھ پرامن انداز میں زندگی گزار رہے ہیں لیکن انتہاپسند گروہ خطے میں مذہبی منافرت کا بیج بونا چاہتا ہے۔
ایسے پرتشدد واقعات کا آغاز، عراق پر اتحادی فوجوں حملے کا بعد ہوا تھا تاہم پچھلے ماہ مئی میں مرنے والے افراد کی تعداد نے 2008 میں ہلاک ہونے والوں کو پیچھے چھوڑ دیا، اگرچہ اس قسم کے واقعات کے بعد سے یہ خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ کہیں یہ تشدد 2006ء اور 2007ء کی فرقہ وارانہ جنگ سے آگے نہ بڑھ جائے-
مبصرین نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ حکام کی قیادت کی ناکامی کے باعث سنی برادری کے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں بڑھاوا دیا۔
اقوام متحدہ (یواین) کے عراقی سفیر مارٹن کوبلر نے پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ پرتشدد واقعات مزید خطرناک شکل اختیار کرسکتے ہیں اور ان میں تیزی آ سکتی ہے-
وزیراعظم نوری المالکی نے کشیدگی کم کرنے کے لئے حال ہی میں اپنے کٹر مخالفین سے بھی ملاقات کی ہے جن میں پارلیمینٹ کے سنی اسپیکر اور علاقہ کرد کے خودمختار صدر شامل ہیں-
ملک کے بڑے سیاستدان مسلسل سیاسی تنازعات کو حل کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں تاہم تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ سب پرتشدد حادثات سے منسلک ہیں اور اس معاملے میں ابھی تک کوئی نمایاں پیشرفت سامنے نہیں آئی ہے-