Dawn News Television

اپ ڈیٹ 28 جون 2014 11:23pm

!چل اپنی پیٹھ خود کھجا

دونوں بھائی بہت دیر سے باہر درخت کے نیچے بیٹھے تھے- اگرچہ ہوا گرم تھی مگر ان حبس زدہ کمروں سے بہتر تھی جو بجلی نہ ہونے کی وجہ سے تندور بنے ہوۓ تھے- دونوں کی پیٹھ گرمی دانوں سے سرخ ہورہی تھی- چھوٹے کو بیچینی زیادہ ہی تھی آخر اس سے رہا نہ گیا-

'اے بڑے ! بہت کھجلی ہے ذرا پیٹھ تو کھجا دے میری'-

'کیوں بیٹا میں کیوں کھجاؤں ؟ کل جب کوکڑی مجھے گلی میں مار رہا تھا تو تو آیا تھا میری مدد کو؟ '

'ابے وہ تو تیرا پھڈا تھا نا، میں کیوں آتا بیچ میں'

'تو بیٹا پیٹھ بھی تیری ہے نا، چل اپنی پیٹھ خود کھجا! '-

بچپن سے اسکول کی کتابوں میں یہی پڑھتے آۓ کہ قوموں کی ترقی و بقاء کا انحصار اتحاد پر ہے- اس دنیا میں وہی قوم اپنا مقام بنا سکتی ہے جس کے لوگوں کے بیچ اتحاد ہے- اتحاد، تنظیم ، یقین محکم ان الفاظ سے اردو ، انگریزی، سندھی کی کتابیں بھری پڑیں تھیں- لیکن جب ہم نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی زمین پر عملی زندگی میں قدم رکھا تو نقشہ ہی الگ تھا، کونسا اتحاد کیسا اتفاق ؟ پوری قوم گروہوں اور فرقوں میں بٹی پڑی ہے- ہر پہلا دوسرے کو کافر یا غدار کہہ کر مارنے کے درپے ہے اور جو تیسرا ہے وہ خاموش تماش بین ہے-

'میرا اور تیرا' کے جھگڑے میں قوم کیا انسانیت کہاں؟ وہ مر رہا ہے مرنے دو، ہمیں تو اپنی پڑی ہے! کوئی کہتا ہے یہاں اکثریت کو حقوق نہیں ملتے اقلیت کو کون پوچھے- ایک سوچتا ہے میرا وقت آیا تو کوئی نہیں تھا میں کیوں کسی کے جنازے پر جاؤں- غرض ہر شخص اپنی اپنی پیٹھ کھجانے میں مصروف ہے- پھر سب کہتے ہیں ہماری شنوائی نہیں ہوتی-

ارے بھائی کیسے ہوگی شنوائی جب ہر شخص اپنے اپنے دکھ کا کشکول الگ لئے کھڑا ہوگا! احمدی مرتا ہے تو شیعہ خاموش- شیعہ مرتا ہے تو احمدی چپ- سنی کا رونا ہے کہ ہم بھی تو مرتے ہیں ہمارے لئے تو کوئی نہیں روتا ہم کیوں کسی کا ماتم کریں ؟ ہندو کی بیٹی اغوا ہو گئی، سکھ بت بنے بیٹھے ہیں- عیسائیوں کو بم سے اڑا دیا، پورا ملک تماشائی بنا بیٹھا ہے- کسی کے مونہہ سے ایک لفظ احتجاج کا نہیں نکلتا- لیڈر آتے ہیں بیان دیتے ہیں، چلے جاتے ہیں- ہجوم منتشر ہو جاتا ہے - کہانی ختم پیسا ہضم- پیچھے رہ جاتے ہیں مردہ جسم، فریاد کرتے چہرے-

دکھ سب کا سانجھا ہے لیکن رونا الگ الگ- دشمن سب کو معلوم ہے کون ہے مگر ایک ساتھ آواز نہیں اٹھانی- مرتے ہیں تو مرنے دو، ہم تو تب بولیں گے جب ہماری باری آۓ گی ابھی سے اپنا دن کیوں خراب کریں- کام دھندا ہے، گھر بار ہے یہ سب چھوڑ کر ہم 'پرائی' لڑائی میں کیوں جائیں-

ہمارا مسئلہ آخر ہے کیا ؟ بجلی؟ نہیں ! بیروزگاری ؟ نہیں! کرپشن؟ نہیں! دہشتگردی؟ بالکل نہیں!

ہمارا مسئلہ ہے نفاق- اس گھن نے پوری قوم کو کھوکھلا کر رکھا ہے- جب تک ہم اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناۓ الگ الگ خداؤں کو پوجتے رہیں گے اسی طرح مرتے رہیں گے- دوسری قومیں یونہی ہمیں جوتی کی نوک پر رکھیں گی- اسی طرح یہ ملک ایک جمورے کی مانند مداری کی ڈگڈگی پر ناچتا رہے گا- جس کا دل چاہے گا، آۓ گا اور مندر کے گھنٹے کی طرح ہمیں بجا کر چلا جائیگا اور ہم یہی سوچتے رہ جائیں گے کہ یہ تو ہماری لڑائی ہے ہی نہیں-

اس ملک کے شہریوں کو اگر اپنی بقاء مطلوب ہے تو بنا کسی نسلی و لسانی یا فرقہ ورانہ تفریق کے بطور ایک قوم اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانا ہوگی- یہ تیرا میرا بھول کر ہر اس شخص اور گروہ حوصلہ شکنی کرنا ہوگی جو ہمارے بیچ تفریق پیدا کر رہا ہے- آپ کو انصاف چاہیے؟ پہلے ایک دوسرے کے ساتھ انصاف کرنا تو شروع کریں-


میری بات تو شاید آپ کو سمجھ نہ آۓ، لیکن ممکن ہے مارٹن نیمولر کے یہ الفاظ آپ کی سمجھ میں آجائیں:

پہلے وہ کمیونسٹوں کو مارنے آئے، میں چپ رہا کیونکہ میں کمیونسٹ نہیں تھا

پھر وہ سوشلسٹوں کو مارنے آئے، میں چپ رہا کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا

پھر وہ ٹریڈ یونینوں کو مارنے آئے، میں چپ رہا کیونکہ ٹریڈ یونین میں نہیں تھا

پھر وہ میرے لیے آ گئے، کوئی نہ بولا کیونکہ کوئی بچا ہی نہیں تھا

پھر وہ میرے لئے آۓ --- اور تب میرے لئے بولنے والا کوئی نہ بچا تھا

-- مارٹن نیمولر

Read Comments