وادیٔ کشمیر کی سیر

26 نومبر 2013
دریائے نیلم سے ہندوستانی کشمیر کو دیکھا جاسکتا ہے۔
دریائے نیلم سے ہندوستانی کشمیر کو دیکھا جاسکتا ہے۔
سانسیں تھام دینے والی آبشار شاردہ کے راستے میں آتی ہے۔
سانسیں تھام دینے والی آبشار شاردہ کے راستے میں آتی ہے۔
اس بچے کو اپنے بالوں کا نیا انداز پسند نہیں آیا۔
اس بچے کو اپنے بالوں کا نیا انداز پسند نہیں آیا۔
محمد کیمرے کے سامنے پوز دے رہا ہے۔
محمد کیمرے کے سامنے پوز دے رہا ہے۔
عید کے کپڑوں کی تیاری میں مصروف ایک درزی کے بقول یہاں کی صورتحال کراچی سے زیادہ مختلف نہیں۔
عید کے کپڑوں کی تیاری میں مصروف ایک درزی کے بقول یہاں کی صورتحال کراچی سے زیادہ مختلف نہیں۔
ایک لڑکی پل پار کررہی ہے۔
ایک لڑکی پل پار کررہی ہے۔
انڈین کشمیر میں موجود گھروں کا نظارہ بھی دریائے کیرن کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔
انڈین کشمیر میں موجود گھروں کا نظارہ بھی دریائے کیرن کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔
دریائے نیلم کے آگے ایک بچہ موجود ہے۔
دریائے نیلم کے آگے ایک بچہ موجود ہے۔
یہ شاردہ کے ایک انگریزی کے استاد ہیں۔
یہ شاردہ کے ایک انگریزی کے استاد ہیں۔
کشمیر میں کافی پرانی گاڑیاں ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہیں۔
کشمیر میں کافی پرانی گاڑیاں ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہیں۔
وہ گزشتہ پندرہ سال سے اپنے خاندان سے نہیں مل سکا، حالانکہ اس کے گھر والے دریا کے اس پار ہندوستانی کشمیر میں رہائش پذیر ہیں۔
وہ گزشتہ پندرہ سال سے اپنے خاندان سے نہیں مل سکا، حالانکہ اس کے گھر والے دریا کے اس پار ہندوستانی کشمیر میں رہائش پذیر ہیں۔
حنا سے رنگے ہاتھوں کے ساتھ ایک شخص وادی بھر میں گھوم رہا ہے۔
حنا سے رنگے ہاتھوں کے ساتھ ایک شخص وادی بھر میں گھوم رہا ہے۔
گائیڈ کی بیٹی آخرکار اپنی تصویر دینے میں کامیاب ہوگئی۔
گائیڈ کی بیٹی آخرکار اپنی تصویر دینے میں کامیاب ہوگئی۔
مظفرآباد کی زیارت گاہ کے منتظم ۔
مظفرآباد کی زیارت گاہ کے منتظم ۔
سمندر جیسی گہری آنکھوں والا کشمیری بچہ لینس کی جانب دیکھ رہا ہے۔
سمندر جیسی گہری آنکھوں والا کشمیری بچہ لینس کی جانب دیکھ رہا ہے۔

مہلم صدری والا زمین کی جنت سمجھے جانے والے آزاد کشمیر کی تصاویر دکھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں کی جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ اس مقام کی خوبصورتی نہیں بلکہ مقامی افراد کا دوستانہ رویہ ہے۔

ان کے بقول یہاں گلیوں میں گزرتے ہوئے بھی ہر شخص ہیلو کہہ کر خیرمقدم کرتا ہے۔ صدری والا حال ہی شادرہ اور کیرن میں گھوم کر آئے اور اب مظفرآباد میں موجود ہیں، مقامی گائیڈ اور ہاتھوں میں کیمرہ لئے انھوں نے دونوں مقامات اور وہاں کے لوگوں کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا۔

انھوں نے کہا کہ مجھے ایک شخص نے اپنی بیوی کی تصویر لینے سے روکا، یہی وجہ ہے کہ میرے پاس خواتین کی تصاویر نہ ہونے کے برابر ہیں، میں نے ننھی بچیوں کی تصاویر تو لیں مگر خواتین کی نہیں۔ درحقیقت اس شخص نے مجھے کہا کہ اگر کسی اور شخص نے مجھے تصویر لینے سے روکا تو وہ خود آگے آکر تصویر لینے کو یقینی بنائے گا۔

آزاد کشمیر کے صدر مقام مظفرآباد میں انھوں نے ایک مقامی مزار کا دورہ کیا، مظفرآباد کا نام 'بومبا بادشاہت' کے سربراہ سلطان مظفر خان کے اوپر رکھا گیا تھا۔

شاردہ 1981 فٹ بلند ایسا خوبصورت مقام ہے جس کا نام ایک لیجنڈ شہزادی کے اوپر رکھا گیا جس کا سایہ شاردی اور ناردی نامی دو چوٹیوں میں سے دکھائی دیتا ہے۔

یہ پورا پہاڑی علاقہ درختوں سے ڈھکا ہوا ہے اور ہر جگہ پھولوں کی بہار نظر آتی ہے۔ صدری والا نے اس علاقے کا دورہ عید کے موقع پر کیا تھا، اس وقت یہاں کے رہائشی اپنے بہترین ملبوسات فروخت کر رہے تھے، درزیوں پر نئے کپڑوں کی سلائی بروقت کرنے کا دباﺅ تھا یہاں تک کہ عید کیلئے اپنے بال کٹوانے والا ہیئر کٹ پر خوش نظر نہیں آرہا تھا۔

انھوں نے کیرن کا بھی دورہ کیا جو 1524 میٹر بلندی پر دریائے نیلم کے کنارے واقع ایک چھوٹا سا علاقہ ہے۔ اپنے خوبصورت پہاڑی علاقے کے مقابلے میں کیرن کی وجۂ شہرت یہاں سے ہندوستانی کنٹرول میں موجود کشمیر کا نظارہ ہے۔ اس سے وہاں آنے والے سیاح کو احساس ہوتا ہے کہ کس طرح دو علاقے ایک دوسرے سے جدا ہیں۔

صدری والا کیلئے وہ لمحہ تکلیف دہ ثابت ہوا جب وہ ایک بوڑھے شخص سے ملے، جس نے بتایا کہ اس کا خاندان دریا کے اس کنارے پر مقیم ہے جو ہندوستانی قبضے میں ہے، اسی لئے وہ ان سے ملنے سے قاصر ہے۔

درحقیقت وہ گزشتہ پندرہ برسوں سے انہیں دیکھ بھی نہیں سکا، ایک چھوٹے سے فوجی پل کے ذریعے دونوں اطراف کو ملایا گیا ہے، جہاں پر پاکستانی اور ہندوستانی فوج کی بھاری نفری تعینات ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں