'جعلی' قیدی
ایک ایسے دور میں کہ جہاں ادویات جعلی اور قیمتی رولیکس کی بھی ہو بہو نقل دستیاب ہو، وہاں'جعلی' قیدی کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں؟
کراچی میں امن و امان کی صورتِ حال پر منگل کو دی جانے والی ایک بریفنگ کے دوران، وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ اس وقت سندھ کی جیلوں میں ایسے اکتالیس 'جعلی' قیدی موجود ہیں جنہیں اصل مجرموں کی جگہ قید رکھا گیا اور جو حقیقی مجرم ہیں، وہ مزید جرائم کرنے کے لیے آزاد دندناتے پھررہے ہیں۔
یہ حقائق اس وقت سامنے آئے جب قیدیوں کی شناخت کو نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے بائیو میٹرک سسٹم کے تحت جانچا گیا، جس سے پتا چلا کہ اکتالیس قیدیوں کے کوائف اصل مجرموں (یا ملزمان) سے مطابقت نہیں رکھتے۔
ذمہ داروں کے تعین اور یہ جاننے کے لیے کیا ایف آئی آر درج کراتے وقت ناموں کی یہ تبدیلی ہوئی یا ایسا تب ہوا جب قیدیوں کو مختلف جیلوں میں پہنچایا گیا تھا، اس کے واسطے ایک اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ اگر ان جعلی قیدیوں کے کوئی سنگین اثرات مرتب نہیں ہوئے تو پھر یہ بڑی تفریح کی بات ہوگی۔
چاہے صاحبِ ثروت ہوں یا پھر کوئی نادار مفلس، کراچی کو اپنے شکنجے میں جکڑنے والے مختلف اقسام کے جرائم پیشہ عناصر نے کراچی کے تمام شہریوں کے دلوں میں اپنا خوف بٹھادیا ہے۔
اگرچہ اس پر کچھ تحفظات ضرور سامنے آئے لیکن جرائم پیشہ عناصر سے شہر کو پاک کرنے کے واسطے، گذشتہ ستمبر سے کراچی میں رینجرز کی قیادت میں جاری آپریشن کا تمام حلقوں کی طرف سے خیرمقدم کیا گیا تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لوگوں کا اعتماد پہلے ہی زیادہ مضبوط نہیں، یہ حقائق سامنے آنے پر یہ اعتماد مزید کمزور ہوگا۔
پولیس میں کرپشن کے سبب یہ بالکل بھی ناقابلِ تصور نہیں، ہوسکتا ہے کہ کسی اور کو، کسی اور کی جگہ مقدمے میں فٹ کردیا گیا ہو یا پھر اصل مجرم کے ساتھ ساز باز کے ذریعے اس کی جگہ کسی دوسرے کی 'بھرتی' ظاہر کردی گئی ہو اور رہا اصل مجرم تو اپنا دکھانے کے لیے بدستور آّزاد ہے۔
اس سنگین واقعے کی گہرائی سے مکمل تحقیقات کرکے، سخت تادیبی قدامات کرنا ضروری ہے تاکہ آئندہ ایسے واقعات پھر پیش نہ آسکیں۔
اس معاملے کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ قیدیوں کی شناخت کی روشنی میں، جعلی قیدیوں کا معاملہ بھی سامنے آگیا اور یہ ثابت ہوگیا کہ منظم طریقہ کار کے لیے، نادرا جیسے ایک جدید نظام کی مکمل گنجائش موجود ہے۔
اگر مجرم نظام کے گرد گھومتے ہوئے اپنا کام دکھا سکتے ہیں تو پھر انہیں پکڑنے کے لیے صرف چھاپے مارنے سے ہی ذمہ داری پوری نہیں ہوجاتی۔