ہلاکت خیز ڈرون سے ڈلیوری بوائے تک

اپ ڈیٹ 03 دسمبر 2013
دنیا کا سب سے بڑا آن لائن اسٹور امیزن ڈاٹ کام اپنے صارفین کو سامان کی ڈلیوری کے لیے ڈرون طیاروں کے استعمال کے تجربات کررہا ہے۔ —. فوٹو رائٹرز
دنیا کا سب سے بڑا آن لائن اسٹور امیزن ڈاٹ کام اپنے صارفین کو سامان کی ڈلیوری کے لیے ڈرون طیاروں کے استعمال کے تجربات کررہا ہے۔ —. فوٹو رائٹرز
اس سروس کے باقاعدہ آغاز میں پانچ سال تک کا عرصہ درکار ہوگا۔ —. فوٹو اے پی
اس سروس کے باقاعدہ آغاز میں پانچ سال تک کا عرصہ درکار ہوگا۔ —. فوٹو اے پی
یہ ڈرون جسے اوکٹوکوپٹر کا نام دیا گیا ہے، دو کلو تین سو گرام تک کے وزن کا سامان صارفین تک ان کے آرڈر دینے کے آدھے گھنٹے کے اندر اندر پہنچادے گا۔ —. فوٹو اے پی
یہ ڈرون جسے اوکٹوکوپٹر کا نام دیا گیا ہے، دو کلو تین سو گرام تک کے وزن کا سامان صارفین تک ان کے آرڈر دینے کے آدھے گھنٹے کے اندر اندر پہنچادے گا۔ —. فوٹو اے پی

مستقبل کیسا ہوگا؟ اس بارے میں بہت سی باتیں کی جاتی ہیں، لیکن اس کی ایک حیرت انگیز جھلک آج ہی ہمارے سامنے آگئی ہے۔ اب خودکار طیارے، ڈرون یا اُڑنے والے روبوٹس آپ کی کتابوں، ڈی وی ڈیز اور دیگر سازو سامان آپ کے آرڈر کرنے کے آدھے گھنٹے بعد آپ کے دروازے پر پیش کردیں گے۔

ہمارے ہاں ڈرون کا نام آتے ہی اس سے وابستہ ہلاکت خیزی کا تصور ذہن پر اُبھر آتا ہے، لیکن مغرب میں یہ ڈرون طیار ے اب ڈیلیوری بوائز کا کام کریں۔ دنیا کا سب سے بڑے آن لائن اسٹور کے سربراہ نے بتایا کہ ان کی کمپنی ڈرون کے ذریعے سامان کی ترسیل کا تجربہ کررہی ہے، تاکہ کارکردگی کو بہتر بنایا اور صارفین تک سامان کو جلد از جلد پہنچایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ڈرون جسے اوکٹوکوپٹر کا نام دیا گیا ہے، دو کلو تین سو گرام تک کے وزن کا سامان صارفین تک ان کے آرڈر دینے کے آدھے گھنٹے کے اندر اندر پہنچادے گا۔

سی بی ایس ٹی وی کے نیوز پروگرام ”ساٹھ منٹ“ میں اتوار کی رات کو امیزن ڈاٹ کام کے سربراہ نے ڈرون کے ذریعے سامان کی ڈلیوری کے منصوبے کا انکشاف کیا، انہوں نے اس اُڑنے والے خودکار طیارے کی کارکردگی کا مظاہرہ بھی پیش کیا۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اس سروس کے باقاعدہ آغاز میں پانچ سال تک کا عرصہ درکار ہوگا۔

امریکی فیڈرل ایوی ایشن انتظامیہ نے سولین مقاصد کے لیے ڈرون کے استعمال کی اجازت دے دی ہے۔

امیزون کے چیف ایگزیکٹیو جیف بیزوس نے بتایا کہ ”میں جانتا ہوں کہ یہ سائنس فکش کی مانند ہے، لیکن فکشن نہیں ہے۔“

امیزون نے ایک وڈیو بھی اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کی ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ ڈرون سامان کا پیکٹ امیزون کے ویئر ہاؤس سے لے کر اُڑتا ہے اور ایک صارف کے گھر کے دروازے پر پہنچا کر واپس آجاتا ہے۔

تاہم انہیں ابھی امریکی حکام سے اس کی منظوری کا انتظار ہے۔

امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) ڈرون کے استعمال کی منظوری پولیس اور حکومتی اداروں کے لیے دے چکی ہے۔ اس نے اب تک پچھلے کئی سالوں کے دوران چودہ سو اجازت نامے جاری کر چکی ہے۔

توقع ہے کہ سولین ایئر اسپیس تمام اقسام کے ڈرون کے لیے امریکا میں 2015ء اور یورپ میں 2016ء میں کھول دی جائے گی۔

سینٹرل لنکاشائر یونیورسٹی میں خودکار ڈرون طیاروں کے ایک ماہر ڈاکٹر ڈارین انسیل کہتے ہیں کہ موجودہ ضابطے زمین پر لوگوں کے زخمی ہونے کے خطرے کو کم سے کم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تاحال خودکار ڈرون طیارے اس قابل نہیں ہیں کہ اپنے ماحول کو سمجھ سکیں اور پرواز کے دوران لوگوں سے نہ ٹکرائیں۔ یہاں رہائشی علاقوں میں لوگوں کے گھروں پر سامان پہنچانے کے کام کی مثال دی جائے تو ڈرون کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ گنجان آباد قصبوں اور شہروں پر لازماً اوپری پرواز کریں۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں دوسری چیزوں پر بھی غور کرنا چاہیٔے کہ سامان کے نقل و حمل کے دوران سامان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے، اس لیے کہ اس خودکار طیارے کے ساتھ کوئی محافظ نہیں ہوگا، چنانچہ سامان پر کوئی قبضہ بھی کرسکتا ہے اور چوری بھی کرسکتا ہے۔

امیزون کا کہنا ہے کہ ”جہاں تک ٹیکنالوجی کے نکتۂ نظر کا تعلق ہے، جیسے ہی ہمیں اس کی باضابطہ اجازت مل جاتی ہے ہم اس کے کمرشل آپریشن کے لیے تیار ہیں۔“

دوسری جانب خودکار ڈرون طیاروں کا استعمال امریکی فوج اور سی آئی اے کی جانب سے پاکستان، یمن اور صومالیہ میں جاری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں