کراچی: پندرہ افراد کی ہلاکت، شہر میں سوگ و ہڑتال
کراچی: پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گزشتہ روز فائرنگ کے مختلف واقعات کے خلاف مجلس وحدت المسلمین کی کال پر آج شہر میں ہڑتال ہے، جبکہ کشیدہ صورتحال کے باعث آج ہونے والے امتحانات بھی ملتوی کردیے گئے ہیں۔
ہڑتال کے باعث شہر کے تمام تعلیمی ادارے بند ہیں جبکہ سڑکوں پر ٹریفک معمول سے کم نظر آرہی ہے۔
تاہم سندھ حکومت نے شہر میں سرکاری تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کیا ہے، لیکن ان میں بھی حاضری کم ہے۔
ڈان نیوز ٹی وی پر نشر ہونے والی خبروں میں بتایا گیا کہ کشیدہ صورتحال کی وجہ سے شہر کی اہم شاہراہ ایم اے جناح روڈ کو کنٹینرز لگا کر ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں کل بروز منگل کو فائرنگ اور پُرتشدد واقعات میں دو غیر ملکیوں سمیت 15 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ان واقعات کے بعد گزشتہ روز ہی مجلس وحدت المسلمین کے جنرل سیکریٹری راجہ ناصر عباس جعفری نے تین روزہ سوگ کا اعلان کرتے ہوئے آج بدھ کو پُرامن احتجاج کا اعلان کیا تھا۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر شہر کا امن و امان بحال نہ کیا گیا تو ملک گیر احتجاج کریں گے۔
تفصیلات کے مطابق فائرنگ کا ایک واقعہ گلشن اقبال کے علاقے میں پیش آیا جس میں مجلس وحدت المسلمین کے رہنما کو ہدف بنایا گیا تھا اور اس سے دو روز قبل اسی علاقے میں دو نوجوان طالبعلموں فرقہ وارانہ قتل کا نشانہ بنے تھے۔
ڈان خبار میں بدھ کو شائع ہونے والی امتیاز علی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ این ای ڈی یونیورسٹی کے قریب دو موٹر سائیکلوں پر سوار چھ نامعلوم مسلح افراد نے ایک ہنڈا کار پر فائرنگ کرکے مجلس وحدت المسلیمن ( ایم ڈیلیو ایم) کے رہنما 55 سالہ علامہ دیدار علی جلبانی اور 35 سالہ سرفراز حسین جو ان کے محافظ تھے، کو ہلاک کردیا، جبکہ حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
اس کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد شام کے وقت ایک اور واقعہ میں تبلیغی جماعت کے تین اراکین کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔
ان واقعات کے بعد ایک مقامی پولیس آفسر پیر محمد شاہ نے عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ تازہ واقعات ملک میں ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ وارانہ فسادات کو بھڑکانے کا حصہ ہیں۔
فائرنگ کا ایک اور واقعات نارتھ ناظم آباد کے علاقے میں پیش آیا جہاں ایک گاڑی پر فائرنگ کی گئی اور اس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہوگئے۔
ہلاک ہونے والوں میں مشتاق محمد نامی شخص بارے میں پولیس ایس ایس پی سینئرل امیر فاروقی کا کہنا ہے کہ وہ گیارہ مئی کے عام انتخابات میں سندھ اسمبلی کی ایک نشست پر منگھوپیر کے علاقے سے کھڑا ہوا تھا اور پانی کا کاروبار کرتا تھا۔
واضح رہے کہ اس سے ایک روز قبل پیر کو ایک سنی رہنما کو بھی سینٹرل ڈسٹرکٹ میں اس وقت گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا جب وہ اپنے ڈاکٹر کے پاس جارہے تھے۔
اس کے بعد شام گئے شہر کے مختلف علاقوں میں فائرنگ کے واقعات میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا جن میں ناظم آباد بلاک آئی میں فائرنگ کے واقعات میں دو افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے جبکہ ایک زخمی ہسپتال میں ہلاک ہوگیا۔
نارتھ ناظم آباد میں یہ واقعہ ایک مسجد کے باہر پیش آیا ہے جہاں تین سنی مبلغین کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
دو موٹر سائیکل پر سوار چار افراد نے مسجد کے باہر ایک تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی جس میں تین افراد موقع پر ہی ہلاک ہوگئے جبکہ حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
امیر فاروقی کے مطابق مارے جانے والے افراد میں دو مراکشی باشندے بھی شامل ہیں جن کی شناخت اور تفصیلات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔
تاہم اسلام آباد میں مراکش کی ایجنسی نے اب تک ان ہلاکتوں کی تصدیق نہیں کی ہے۔
اس کے علاوہ بلدیہ، اتحاد ٹاؤن اور لانڈھی میں بھی فائرنگ کے واقعات پیش آئے ہیں۔
سیکیورٹی وارننگ
واضح رہے کہ اس سے ایک روز قبل حساس اداروں نے خفیہ معلومات کی بنیاد پر کہا تھا کہ شہر میں شیعہ مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی امام بارگاہوں اور ہائی پروفائل شیعہ شخصیات پر حملے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا۔
ڈان ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق شہر میں کریکر حملے بھی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب حساس اداروں نے خبر دار کیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشتگرد شہر میں شرپسندی اور دہشتگردی کی کارروائیاں کرسکتے ہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں