بُری ٹھوکر

07 دسمبر 2013
فائل فوٹو۔۔۔
فائل فوٹو۔۔۔

وقت کا امتزاج، حکومت کو فوری نوعیت کے حامل متعدد اہم امور پر غور و خوض کی طرف لے جارہا ہے لیکن اس کے بجائے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے چیئرمین کی (ناکام) برطرفی ظاہر کرتی ہے کہ وہ جلد بازی اور گھبراہٹ کا سہارا لے رہی ہے۔

اطلاعات کے مطابق دو اور تین دسمبر کی درمیانی نصف شب میں نادرا چیئرمین کو برطرفی کا پروانہ تھما دیا گیا تھا، پاکستان میں اقتدار کی غلام گردشوں میں برسوں سے جاری تاریک سرگرمیوں کا یہ ایک استعارہ ہے۔

حکم نامہ ملنے کی دوسری صبح، تین دسمبر کو جناب ملک نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا رخ کیا جس نے برطرفی کا حکم معطل کرتے ہوئے حکمِ امتناعی (اسٹے آرڈر) جاری کردیا اور اب بڑے پیمانے پرعوامی قیاس آرائیوں کے درمیان اس کیس کی سماعت کا انتظار ہے۔

اسی دوران، نواز شریف حکومت کو بھی ہدایت دی گئی ہے کہ نادرا چیئرمین کی برطرفی کی کوشش میں قواعد و ضوابط پر عمل نہیں کیا گیا تھا۔

جناب شریف نے حزبِ اختلاف میں رہنے کے دوران اپنے 'سنجیدہ' اندازِ سیاست کی بدولت کافی نام کمایا تھا۔ سن دو ہزار سات میں وطن واپسی سے لے کر گذشتہ مئی میں منعقدہ عام انتخابات تک، پیچیدہ سیاسی و قومی معاملات سے نمٹنے میں جناب شریف نے جس تحمل کا مظاہرہ کیا، وہ اپنی جگہ یاد کیے جانے کے قابل ہے۔

مئی انتخابات کی کامیابی کے بعد، اب ان کے حوصلے، تحمل اوراصولوں کی پاسداری کی آزمائش ہے۔ اگرچہ ان کے دورِ اقتدار کے اتنے اوائل میں کوئی فیصلہ صادر کردینا غیر منصفانہ ہوگا تاہم اس دوران انہوں نے جو چند سمجھوتے کیے، وہ احتیاط کے الفاظ کی ضمانت پر زور دیتے ہیں۔

یہ بات سمجھ آتی ہے کہ جناب وزیرِ اعظم اور ان کی ٹیم کے ارکان کو اہم حکومتی منصب پر ایسے لوگوں کی ضرورت ہوسکتی ہے جن پر وہ بھروسہ کرسکیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ خود کو باور کرائیں کہ صوابدیدی اختیارات کے تحت کسی کو ملازمت پر رکھا تو جاسکتا ہے لیکن کسی افسر کی تبدیلی کے لیے قانون کے طے شدہ طریقہ کارپر عمل ضروری ہے۔

تیسری بار مدتِ حکمرانی شروع ہوئے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے لیکن جناب طارق ملک کو اُنہی پرانے طور طریقوں سے برطرف کرنے کی کوشش نے لامحالہ طور پر جناب شریف اور ان کے رفقا کی جانچ پڑتال اور افواہوں، دونوں کو بے نقاب کردیا ہے۔

نادرا کے سربراہ بڑی تعداد میں اُن ووٹوں کے تصدیقی عمل میں شامل ہیں جنہیں حاصل کر کے پاکستان مسلم لیگ ۔ نون نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی، اب یہ بات اپوزیشن کی سیاست کے لیے مرچ مصالحہ کا کام دے گی۔

یہ بات ان کے حامیوں اور نظام میں تبدیلی کی خاطر ان سے توقعات وابستہ کرنے والوں کے لیے بھی نا امیدی کا باعث ہے؛ اس سے صرف اُنہی کے حوصلے بُلند ہوں گے جو نامناسب طور پر، وزیراعظم کے جلد چلے جانے کی پیشگوئیاں کرتے ہیں۔

جناب ملک کو برطرف کرنے کی ناکام کوشش کے بعد، اب حکومت پر زیادہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستان مسلم لیگ ۔ نون پر انتخابات میں دھاندلی کے لگائے گئے متعدد الزامات کی بامقصد اور شفاف تحقیقات یقینی بنانے کی ضمانت دے۔

انگریزی میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں