پنجاب کا رویہ

09 دسمبر 2013
فائل فوٹو۔۔۔۔
فائل فوٹو۔۔۔۔

مصلحت، ہمدردی، خوف، سازش، ملی بھگت ۔۔۔ جو چاہے نام دے لیں لیکن پنجاب میں فرقہ واریت کے محاذ پر پاکستان مسلم لیگ ۔ نون جو کھیل، کھیل رہی ہے وہ خطرناک اور حوصلہ شکن ہے۔ راولپنڈی کے حالیہ محرم تشدد کے بعد اب جمعہ کو لاہور میں اہلِ سُنت والجماعت کے رہنما کا دن دھاڑے قتل، صوبے میں بڑھتی فرقہ وارانہ کشیدگی کا پتا دیتا ہے۔

اور اب جبکہ پنجاب میں حکمرانی کرتے انہیں چھ برس ہوچکے اور مزید چار سال سامنے قطار میں کھڑے ہیں تو ضروری ہوچکا کہ اس کی ذمہ داری مسلم لیگ ۔ نون پر ہی ڈالی جائے۔

اگرچہ پارٹی شدت پسند تنظیموں کے ساتھ کسی قسم کے روابط یا انہیں برداشت کرنے سے کھلے عام انکاری ہے لیکن نجی طور پر وہ، اپنے اقتدار کے مرکز، پنجاب میں سیاسی استحکام اور سلامتی کی ضرورت کے پیشِ نظر، اُن سے تعلق کا اعتراف کرتے ہیں۔

بعض انتہا پسند تنظیموں کی مساجد، مدارس اور سماجی بہبود نیٹ ورک کے ڈھانچے نفرت پھیلانے کے مراکز بن چکے اور اطراف میں بڑھتے ٹھوس رسوخ کے سبب، گذشتہ برسوں کے دوران، موخرالذکر کے لیے اُن کی انتخابی و سیاسی اہمیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

مسلم لیگ ۔ نون کی طرح کئی اور جماعتوں نے بھی سیاست کے میدان میں زندہ رہنے کے لیے اسی نوعیت کے لین دین کا طریقہ اپنایا جو کئی دہائیوں بعد، سیاستدانوں کے قابو سے باہر قوت کی شکل اختیار کرچکا ہے لیکن اس ضمن میں دلائل دو بنیادی نکات نظر انداز کرتے ہیں۔

اول یہ کہ بلاشبہ مسلم لیگ ۔ نون پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، لہٰذا اس صورتِ حال میں اس کی ذمہ داریاں بھی دوسروں سے زیادہ منفرد نوعیت کی ہیں۔

اگر صوبے کی سیاست برسوں تک انہیں ایک لڑی میں پروئے، شدت پسندی کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے تو اب یہ سیاستدان ہی ہیں کہ جن کی ذمہ داری ہے ہے کہ وہ محاذ پر آگے بڑھیں اور رواداری کی ایک مختلف پیشکش کرتے ہوئے، عمل سے اس کی پشت پناہی کریں۔

سب ماضی پر نوحہ خواں ہوتے ہوئے حال کے بگاڑ سے سمجھوتہ کرلیتےہیں، یہ انداز تو قیادت کا نہیں ہوتا؛ یہ بزدلی اور شکست کی سیاست ہے۔

دوئم، یہ سوچ کر فرقہ واریت کے انگاروں کو خاموشی سے دہکتے الاؤ میں تبدیل ہونے کی چھوٹ دینا کہ حالات قابو پانے کے لیے کافی ہیں، ملکی قیادت کا یہ نقطہ نظر ملک کو تشدد، خاص طور پر مذہبی تنازعات کے گرداب میں دھکیل دے گا۔

پنجاب میں مسلم لیگ ۔ نون کے رویوں میں آج بھی بنیاد پرستوں کے ساتھ، واضح وجوہات کی بنا پر ساز باز کے لیے، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے قائم کردہ تعلق کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔

جیسا کہ ملک کی بھاری قیمت پر، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے سبق سیکھا کہ انتہا پسندی کا عفریت آخر میں خود خالق بن جاتا ہے، شاید مسلم لیگ ۔ نون بھی پنجاب اور اس سے آگے کی قیمت چکا کر ہی سبق سیکھ سکتی ہے کہ شدت پسند گروہوں کی جانب چاپلوس رویہ، خود نون لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں پر زمین تنگ کردے گا۔

تاریخ سے سب حاصل کرنے میں اب بھی بہت زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔

انگریزی میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں