سیاسی رضامندی نہیں

10 دسمبر 2013
سیاچن مسئلے کا حل، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر دونوں فریقین کی سیاسی قیادت کے کنٹرول میں ہے۔,ہ فائل فوٹو۔۔۔
سیاچن مسئلے کا حل، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر دونوں فریقین کی سیاسی قیادت کے کنٹرول میں ہے۔,ہ فائل فوٹو۔۔۔

ایک بار پھر نیچے اتر آنے کی بات کی گئی ہے۔ سفارت کاروں نے ایسے مقصد کی بات کی ہے جسے با آسانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے تو سیاچن سب کچھ ثابت کرچکا لیکن۔۔۔

تازہ ترین اشارہ ہندوستانی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے آیا، جس میں ہندوستانی فوج کے ایک بے نام ذریعے کے حوالے سے کہا گیا کہ سرتاج عزیزنے تجویز دی ہے کہ اہم گلیشیروں کو لاحق ماحولیاتی خطرات کے پیشِ نظر سیاچن سے فوجوں کو واپس بلالینا چاہیے۔

پاکستان کے آبی وسائل و ذرائع کو، سیاچن میں ہندوستانی فوجی دستوں کی موجودگی کے باعث ماحولیاتی خطرات کا سامنا ہے لیکن اُن کے ذرائع ابلاغ میں جناب عزیز سے منسوب الفاظ مخصوص ہندوستانی تناظر میں تھے۔

پاکستان کا تو طویل عرصے سے ہی موقف رہا ہے کہ سیاچن کو فوجی دستوں سے خالی کرکے 'نومینز لینڈ' کا درجہ دے دیا جائے تاہم ہندوستانی فوج نے سیاچن پر طاری جمود کو مضبوط کرتے ہوئے، فوری طور پر اس تجویز کومسترد کردیا: پاکستان نے ہمیشہ تجویز پیش کی اور ہندوستان ہمیشہ اس کی مخالفت کرتا رہا ہے۔

سیاچن پر بھارتی فوج کی ضد کی جڑیں، تنگ نظری پر مبنی سوچ میں پیوست ہیں: سیاچن میں ہندوستان کا فوجی مفاد ہے؛ فوجی انفرااسٹرکچر اور رسد فراہمی کے راستوں کو بہتر بنا کر، سرد ترین موسمی حالات اور ناموافق قدرتی ماحول میں خطرے کے امکانات کو کم کردیا ہے۔

سیاچن پر قبضہ، فوجی ثقافت میں غیرت کے تصورِ مردانگی کا کام سرانجام دیتا ہے۔

پرویز مشرف کی اس سراسر حماقت کا شکر گذار ہونا چاہیے کہ جس کے باعث سانحہ کرگل کے نتیجے میں ہندوستانی فوج کو اعتماد سازی کی تباہی اورسیاچن پر مشترکہ معاہدہ روکنے کے واسطے کافی گولہ و بارود حاصل کرنے کا موقع ملا، تاہم اس منطق کو سمجھنا چاہیے کہ یہ خود کار طریقے سے قبول کرنے کے مساوی نہیں ہے۔

پرویز مشرف نے جو کچھ کیا، اُسے اس طرح کے میکنزم کی تصدیق کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا کہ جب ایک بار سیاچن سے فوجی انخلا ہوجائے تو اُن کے دوبارہ نہ پلٹنے کی ضمانت ملتی ہو۔

ہندوستانی فوج کا اصرار ہے کہ سیاچن پر جہاں جہاں دونوں فریقین موجود ہیں، اُس کی نشان دہی یا حد بندی کردی جائے، ایسا کرنا پاکستان کے لیے سرخ پرچم ثابت ہوگا اور اس سے یہ خطّہ متنازع بن جائے گا۔

مسئلے کا حل، ہمیشہ کی طرح، سب ہی اچھی طرح جانتے ہیں: دونوں فریقین کی اپنی اپنی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر قابوپانے کے لیے سیاسی آمادگی۔ اس مخصوص معاملے پر، اس مخصوص علاقے میں، اسی سے مسئلے کا حل ممکن ہے۔

انگریزی میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں