پاکستان کی اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور گورنر خیبر پختونخوا کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر لاپتہ افراد کو بازیاب کروائیں، کیونکہ اب ان لوگوں کو پیش کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ جبری گمشدگیاں روکنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔

سپریم کورٹ میں 35 لاپتہ افراد سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے عدالتی فیصلے پر عمل نہیں کیا گیا جو ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔

سماعت کے موقع پر قائم مقام سیکریٹری دفاع نے بتایا کہ آزاد افراد کو عدالت میں پیش نہیں کرسکتے، کیونکہ واپس جاکر ان کی جان کو خطرہ ہوگا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ آپ نے نئی کہانی شروع کردی ہے، ہم اب مالاکنڈ حراستی مرکز کے کمانڈر عطاء اللہ کو طلب کر کے ان کا بیان قلمبند کریں گے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ دیکھ لیں بات وہیں کی وہیں ہے، صرف دو افراد فوت ہوئے باقی کو تو پیش کریں۔ یہ بات کوئی نہیں مانے گا کہ لوگ افغانستان چلے گئے۔

چیف جسٹس کا سیکرٹری دفاع پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حراستی مرکز سے ان قیدیوں کو آپ کے بندے لے کر گئے تھے اور اگر مقدمہ چلا تو صوبیدار امان اللہ سب سے پہلے جیل جائے گا، آپ کی باتیں سمجھ سے بالاتر ہیں اور اب نتائج کا سامنا کریں۔

سیکرٹری دفاع نے بتایا کہ دو ہلاک افراد کے لواحقین کو پیش کرسکتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے وہ لوگ بھی آپ کی حراست میں ہیں۔

"ہمیں ان لوگوں کے نام بتائیں جو آپ کو لاپتہ افراد کی معلومات فراہم کرتے ہیں۔"

چیف جسٹس نے کہا کہ اگست میں بتایا گیا کہ یاسین شاہ غیر اعلانیہ حراست میں ہیں اور عدالت نے ہمیشہ صبر کا مظاہرہ کیا۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ اب تک صرف 7 افراد کو ہی پیش کیا جا سکا ہے۔

قائم مقام سیکرٹری دفاع نے کہا کہ مجھے معاملات کا صحیح طور پر علم نہیں اور جس قدر معلومات فراہم کی جاتی ہیں وہی بیان کرتا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم کا اس معاملے میں بطور چیف ایگزیکٹیو شامل ہونا معمولی بات نہیں کیونکہ وزیراعظم ملک کے انتظامی سربراہ ہیں، لیکن ہو سکتا ہے معاملات کی سنگینی سے وزیراعظم آگاہ ہوں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی دلچسپی سے عدالت کو اطمینان تھا کہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

چیف جسٹس نے سیکریٹری دفاع کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے بھی ہمارے حکم پرعمل نہیں کیا، لگتا ہے آپ کے خلاف حکم جاری کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ آپ گریڈ 22 کے آفسر ہیں، لیکن پھر بھی کوتاہی کررہے ہیں، عدالت نے کہا کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وزیراعظم کی دلچسپی کے باوجود ابھی تک یہ مسئلہ حل کیوں نہیں ہوسکا۔

عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہوتے ہوئے مداخلت کا اختیار رکھتی ہے اور اس سے قبل گلگت بلتستان میں بھی عدالت اپنے دائرہ اختیار کی وضاحت کرچکی ہے۔

کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی گئی.

تبصرے (0) بند ہیں