کوئٹہ: قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے خلاف احتجاج، فائرنگ سے دو ہلاک

اپ ڈیٹ 12 دسمبر 2013
اہلِ سنت والجماعت کے کارکنوں اور حمایتیوں کی بڑی تعداد اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز لیے سڑکوں پر نکل آئی۔ انہوں نے مختلف سڑکوں پر مارچ کیا اور جب یہ ہجوم لیاقت بازار اور قندھاری بازار کے مرکزی تجارتی علاقے میں پہنچا، تو کچھ لوگ جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور ڈنڈے اُٹھا رکھے تھے، دکانوں کی توڑ پھوڑ اور گاڑیوں پر پتھراؤ شروع کردیا۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
اہلِ سنت والجماعت کے کارکنوں اور حمایتیوں کی بڑی تعداد اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز لیے سڑکوں پر نکل آئی۔ انہوں نے مختلف سڑکوں پر مارچ کیا اور جب یہ ہجوم لیاقت بازار اور قندھاری بازار کے مرکزی تجارتی علاقے میں پہنچا، تو کچھ لوگ جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور ڈنڈے اُٹھا رکھے تھے، دکانوں کی توڑ پھوڑ اور گاڑیوں پر پتھراؤ شروع کردیا۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

کوئٹہ: کل بروز بدھ گیارہ دسمبر کو شہر کے مختلف علاقوں میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے خلاف احتجاجی مارچ کے دوران فائرنگ سے دو افراد ہلاک اور ایک خاتون سمیت چھ افراد زخمی ہوگئے۔

پولیس کے مطابق ہجوم نے گاڑیوں اور دکانوں پر پتھراؤ کیا اور تین موٹر سائیکلوں کو آگ لگادی۔ پولیس نے احتجاجی ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا اور آنسوگیس کا استعمال کیا، اور تشدد میں ملؤث بیس افراد کو گرفتار کرلیا۔

ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ ”ہزارہ گنجی فروٹ اور سبزیوں کی مارکیٹ میں ایران سے لائے گئے انار کی پیٹیوں سے مبینہ طور پر قرآن کے اوراق کے برآمد ہونے کے بعد یہ احتجاج شروع ہوا۔“ انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے کی تفتیش کا آغاز کردیا گیا ہے۔

اہلِ سنت والجماعت کے کارکنوں اور حمایتیوں کی بڑی تعداد اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز لیے سڑکوں پر نکل آئی۔ انہوں نے مختلف سڑکوں پر مارچ کیا اور جب یہ ہجوم لیاقت بازار اور قندھاری بازار کے مرکزی تجارتی علاقے میں پہنچا، تو کچھ لوگ جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور ڈنڈے اُٹھا رکھے تھے، دکانوں کی توڑ پھوڑ اور گاڑیوں پر پتھراؤ شروع کردیا۔

مشتعل احتجاجی ہجوم نے ٹائر جلا کر سڑکوں کو بلاک کردیا اور منان چوک، میزان چوک، لیاقت بازار، مسجد روڈ، پرنس روڈ اور سیٹیلائٹ ٹاؤن پر رکاوٹیں کھڑی کردیں۔

لیاقت بازار اور قندھاری بازار میں موٹرسائیکل پر سوار افراد نے اندھادھند فائرنگ شروع کردی، جس چھ افراد زخمی ہوگئے۔ جن میں سے ایک زین العابدین نامی شخص سول ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگئے۔

خلیل احمد مہمند پر سیٹیلائٹ ٹاؤن میں حملہ کیا گیا تھا، وہ بھی ہسپتال پہنچ کر ہلاک ہوگئے۔

فرنٹیئر کور، پولیس اور بلوچستان کانسٹبلری کو فوری طور پر طلب کرلیا گیا تھا۔ پولیس نے احتجاجی ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مشتعل احتجاجی ہجوم کو علمدار روڈ کے علاقے میں داخل ہونے سے روکا، جو شیعہ ہزارہ کی اکثریتی آبادی کے نزدیک ہے۔

اس احتجاج نے شہر کی رومرّہ زندگی کو کئی گھنٹے تک مفلوج کیے رکھا۔

سیکیورٹی فورسز نے بکتر بند گاڑیوں اور زیروفورسز کے ہمراہ کاروائی شروع کی اور صورتحال پر قابو پایا۔

اہل سنت والجماعت کے رہنما مولانا محمد رمضان مینگل نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کی تفتیش کرے اور جس پڑوسی ملک سے مبینہ طور پر یہ پھل درآمد کیا گیا تھا، اس سے سفارتی تعلقات منقطع کرلیے جائیں۔

رات گئے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں ایرانی قونصلر جنرل نے کہا کہ قرآن کی بے حرمتی کے واقعہ کی تحقیقات شروع کی جاچکی ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ”کوئٹہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصلر جنرل نے اس واقعہ کے پسِ پردہ مقا صد کا تعین کرنے کے لیے پاکستانی حکام سے رابطہ کیا ہےاور اس کے حوالے سے تمام معلومات فراہم کی ہیں۔“ بیان میں مزید کہا گیا کہ اس بے حرمتی اسلام کے دشمنوں کی جانب سے کیا گیا تھا، اور یہ غیرمسلموں کی طرف سے رچی گئی سازش تھی۔ یہ عناصر جو دو برادر اور پڑوسی اسلامی ملکوں پاکستان اور ایران کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی کارروائیوں میں ملؤث ہیں، جلد ہی بے نقاب ہوجائیں گے۔

تبصرے (3) بند ہیں

rabnawaz Dec 12, 2013 12:31pm
افسوس صد افسوس ان نام نہاد علماء پر اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔ قرآن مجید کی جو بے عزتی کی گي ۔اس دکھ درد کو الفاظ میں بیان کرنا میرے بس کی بات نہیں ؛ یہ اس لیے نہیں کہ مجھ کو قرآن مجید سے محبت نیہں ۔وہ اس لیے ۔یہ وہ کتاب ھے ۔ جس کی حفا ظت کا ذمہ خود خدا نے لیا ھے ۔ چا ھیے تو یہ تھا تمام علماء کرام اعلان کرتے اور عوام سے کہتے۔ کہ اس طرح کا واقعہ ھوا ۔ اب ھم کو چا ھیے ھم سب مل کر اللہ کے حضور دعا کرتے ۔اور اللہ تعالی کو اپنا وعدہ یاد دلاتے۔ تو کیا اللہ تعالی ان کو نا پکڑتا۔ اور ان علماء کو چا ھیے تھا۔ کہ قرآن مجید کی خوبیاں بیان کرتے ۔ نا اس سے مسلمانوں کے دلوں میں قرآن محبت پیدا ھوتی اورتوجن لوگوں نے اخلاق سوز حرکت کی تھی ان پر بھی اچھا تاثر جاتا ۔ آپ لوگوں نے یہ کر کے کیا مقاصد حاصل کرلیے ھیں۔ ان نام نہاد کوی مو قع چاھیے ھوتا ھے اسلام کو بدنام کرنے کا۔ مجھ کو اللہ تعالی پر یقین ھے ۔جس کسی نے بھی یہ حرکت کی وہ اللہ کی پکڑ سے نیہں بچ سکتا ۔خواہ وہ دنیا کے کسی کنارے پر چلا جاۓ۔ مجھ کو زیادہ افسوس ان نا کے مسلما نوں پر ھوتا ھے جہنوں نے قرآن مجید کی تعلیم کے بر خلاف اقدام کر کے بے اوبی کی ھے اور اپنے گھر کے رہنے والوں کا نقصان کیا ھے۔ وہ جہنوں نے احلاق سوز حرکت کی وہ شاید قرآن مجید کی عظمت سے نا واقف تھے ۔اب خاکسار قرآن مجید کی مدح میں لکھے گا۔ جو کہ اللہ تعالی کے برگزیدا بندے جو کہ عاشق رسول کریم تھے' جمال و حسن قرآں نور جان ہر مسلماں ھے ،،، قمر ھے چاند اوروں کا ھمارا کا ،، ھمارا چاند قرآں ھے،، نظیر اس کی نیہں جمتی؛؛؛نضو میں فکرکر دیکھا،،''' بھلا کیوں کر نہ یکتا کلام پاک رحماں
xanzay Dec 12, 2013 05:14pm
Pleasing God by burning shops and bikes!!! Shame on lunatic nation.
انور امجد Dec 12, 2013 11:02pm
احتجاج کے دوران عام شہریوں کو نشانہ بنانا دہشت گردی ہے۔