استثنا ختم ہو

13 دسمبر 2013
لاپتا افراد کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ، ریاست اندر ریاست جمہوری معاشرے میں ہرگز قبول نہیں۔   اے ایف پی  ، فوٹو۔۔۔۔
لاپتا افراد کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ، ریاست اندر ریاست جمہوری معاشرے میں ہرگز قبول نہیں۔ اے ایف پی ، فوٹو۔۔۔۔
سپیرم کورٹ کے حکم پر لاپتہ افراد کو شناختی عمل کے لئے 7، دسمبر 2013کو عدالت میں پیش کیا گیا،اے ایف پی فوٹو۔۔۔
سپیرم کورٹ کے حکم پر لاپتہ افراد کو شناختی عمل کے لئے 7، دسمبر 2013کو عدالت میں پیش کیا گیا،اے ایف پی فوٹو۔۔۔
سپریم کورٹ، فائل فوٹو۔۔۔
سپریم کورٹ، فائل فوٹو۔۔۔

سپریم کورٹ نے منگل کو اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ انٹیلی ایجنسیاں، لواحقین کو مطلع کیے بغیر، شہریوں کو اپنی تحویل میں نہیں رکھ سکتیں۔ واقعات کے تسلسل میں یہ وہ تازہ ترین واقعہ ہے جس میں ریاست کے اندر ایک اور ریاست کی موجودگی کا معاملہ اٹھایا گیا ہے۔

جیسا کہ بنچ نے خود اشارہ کیا، وفاقی اور صوبائی سطح پر قبائلی علاقوں کے انتظام چلانے کے قوانین ایک طرف، ملک میں ایسا کوئی قانونی تحفظ موجود نہیں جو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ہاتھوں شہریوں کو حراست میں رکھنے کی تصدیق کرتا ہو۔

فیصلے کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوج نے لکی مروت کے حراستی مرکز سے پینتیس زیرِ حراست شہریوں کو اپنی تحویل میں لیا لیکن اُن میں سے سےصرف سات کو عدالت کے روبرو پیش کیا گیا۔

عدالت کے ریمارکس سے اس نقطہ نظر کو تقویت ملتی ہے کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ جسے اپنی نظر میں خطرہ سمجھتی ہے، ان عناصر سے نمٹنے کے لیے قانون سے ماورا کارروائیاں کرتی ہے اور یہ رویہ اسے مشتبہ شہریوں کو غیر قانونی طور پر اٹھانے، حراست میں رکھنے اور اُن پر تشدد کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

ایک ریاست جو خود کو جمہوری سمجھتی ہو، وہاں ایسی صورتِ حال ہرگز قابلِ قبول نہیں۔ یہ فیصلہ اور دیگر ، جیسے اڈیالہ جیل کے گیارہ قیدیوں اور بلوچستان کے لاپتا افراد کے مقدمات، ثابت کرتے ہیں کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کسی کو جوابدہ نہیں۔

اس حقیقت کے باوجود کہ جنہیں اٹھایا گیا، اُن پر عسکریت اور علیحدگی پسندی کا شبہ تھا لیکن من مانی کارروائی اور غیر قانونی حراست کُلی طور پر بے جواز ہے۔

سپریم کورٹ کا شکریہ کہ جس کی کوششوں سے وہ ریاست، جو ابھی حال تک لاپتا افراد سے متعلق کسی بھی قسم کی اطلاع سے ہی انکاری تھی لیکن جیسا کہ ہم نے سنیچر کو دیکھا، آخر بعض 'لاپتا' افراد کو عدالت کے روبرو پیش کرنا ہی پڑا۔

اسی سے ظاہر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے اندر کوئی ایسا ضرور ہے جو بالکل درست طور پر جانتا ہے کہ لاپتا افراد کہاں رکھے گئے ہیں۔ جب تک ثابت نہ ہوجائے، تب تک اس ضمن میں انٹیلی جنس ایجنسیوں پر ہی من مانی کرنے کے الزامات رہیں گے۔

ضروری ہے کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ جبری گمشدگیوں کا ریکارڈ پیش کرے، مسئلہ صرف اُسی صورت حل ہوسکتا جب مطلوب دہشتگردوں اور عسکریت پسندوں کو تحویل میں رکھنے کے لیے صرف قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کارروائی کی جائے۔

کہا جارہا ہے کہ اب سول نظامِ انصاف کو بھی انصاف کی فراہمی شروع کردینی چاہیے۔ مالاکنڈ میں سویلین سیٹ اپ کی عدم موجودگی اس بات کی سب سے بڑی مثال ہے کہ صورتِ حال کو قابو میں رکھنے کی خاطر سول انتظامیہ کی نااہلی سے، کس طرح سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو اپنی من مانیوں کی خاطر گنجائش میسر آتی ہے۔

انگریزی میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں